بی لہری ، ندیم خان اور عمران انصار
پارلیمانی حلقوں کی حدبندی سے متعلق مودی حکومت کے منصوبوں پر حالیہ مباحث نے جنوبی ہند کو شمالی ہند کے خلاف لا کھڑا کیا ہے ۔ فی الوقت مرکزی حکومت کا منصوبہ بہت زیادہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ چیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے ازسرنو تعین کا مقصد ظاہر طورپر بڑھتی ہوئی آبادی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کی تمام ریاستوں کی منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنانا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو پارلیمانی حلقوں کی نئی حدبندی کا مقصد بااثر جنوبی ہند کی ریاستوں کو سزاء دینا ہے۔ یہ ایسی ریاستیں ہیں جو بی جے پی کی فرقہ پرستانہ پالیسیوں ، اس کے نظریات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی ۔
جنوبی ہند کی ریاستوں نے آبادی پر کنٹرول سے متعلق مرکزی حکومت کے پروگرامس و پراجکٹس کو کامیاب بنایا ساتھ ہی یہ ریاستیں ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ادا کررہی ہیں لیکن شائد اُنھیں اس کی سزا دینے کی تیاریاں کی جارہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں بتایا کہ ان ریاستوں نے آبادی پر کنٹرول کیلئے متعدد اقدامات کئے جبکہ شمالی ہند کی ریاستیں آبادی پر کنٹرول میں بری طرح ناکام رہی جس کا خمیازہ جنوبی ہند کی ریاستوں کو بھگتنا پڑے گا اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کا تناسب بھی گھٹ جائے گا ۔ ( اگر اگلی مردم شماری کے خطوط پر پارلیمانی حلقوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ) ہاں ایک اور اہم بات ، پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی سے صرف جنوبی ہند کی ریاستوں کا نقصان ہوگا ، پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی گھٹ جائے گی ۔ ماضی میں حد بندی جس انداز میں کی گئی اسے دیکھئے جس سے پتہ چلے گا کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ دلتوں اور مسلمانوں کی نمائندگی بھی گھٹ جائے گی ۔
آخر حد بندی کیا ہے ؟
ہمارے ملک کے دستور کی دفعات 82 اور 170 میں یہ واضح طورپر کہا گیا ہے کہ ہر مردم شماری کے بعد لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کی نشستوں ( حلقوں ) کا ازسرنو تعین کیا جانا چاہئے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ حلقوں کی حد بندی کا عمل حدبندی کمیشن انجام دیتا ہے اور یہ کمیشن پارلیمنٹ کے ایک قانون ( ایکٹ ) کے تحت قائم کیا گیا ۔ حدبندی کے عمل میں یہ بھی دیکھا جاتا ہیکہ آیا پارلیمانی ؍ اسمبلی حلقہ درج فہرست طبقات و قبائل کیلئے محفوظ کیا جائے گا یا نہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہمارے ملک میں 1951، 1961 اور 1971 کی مردم شماری کے بعد حلقوں کا ازسرنو تعین کیا گیا یعنی حلقوں کی حد بندی کی گئی ۔ تاہم 1976 ء میں یہ عمل اگلے 25 برسوں کیلئے روک دیا گیا جس کا مقصد آبادی پر کنٹرول سے متعلق پروگراموں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے ۔ اس وقت یہ طئے کیا گیا کہ 1971 ء میں جو آبادی تھی اسے حلقوں کی تعداد کے تعین کیلئے بنیادی خط Base Line سمجھا جائے ۔ جب 2001 ء میں دستور کے مطابق حلقوں کے حجم یاسائز کے ازسرنو تعین اور حلقوں ؍ نشستیں بڑھانے کا وقت آیا واجپائی حکومت کی مجہول مخلوط حکومت نے نشستوں میں اضافہ کے فیصلہ کو آئندہ 25 برسوں تک موخر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس وقت واجپائی زیرقیادت مخلوط حکومت بہت کمزور تھی تاہم 2002 ء میں ایک حد بندی کمیشن Delimitation Commission قائم کیا گیا تاکہ کئی حلقوں کی سرحدوں کے ازسرنو تعین اور درج فہرست طبقات و قبائل کے ارکان کے حق میں حلقے محفوظ کرنے پر توجہہ مرکوز کی جائے ۔ چنانچہ حدبندی کمیشن کی سفارشات پر عام انتخابات 2009 ء میں عمل آوری کی گئی ساتھ ہی حلقوں میں اضافہ سے متعلق فیصلہ کو مزید 25 برسوں کیلئے موخر کردیا گیا ۔ 2021 ء کی مردم شماری کو جو آئندہ ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد بننے والی تھی کووڈ ۔ 19 کے باعث منسوخ کرنا پڑا اور پھر مرکزی حکومت کی جانب سے تاخیر کے نتیجہ میں حلقوں کی نئی حد بندی کاعمل 2026 ء سے شروع ہونے کا مکان ہے ۔ اسی دوران سال 2022 ء میں جموںو کشمیر اور آسام میں دو پائلٹس پراجکٹس شروع کئے گئے ۔ جموںو کشمیر کو حاصل رہا خصوصی موقف مسنوخ کئے جانے کے بعد سال 2022 ء میں یہ پراجکٹ شروع کیا گیا جبکہ آسام میں 2023 ء میں اسی پائلٹ پراجکٹس پر عمل کیا گیا ۔ ماضی میں حلقوں کی حدبندی کے عمل کے اکثر نتائج اقلیتی طبقات کے خلاف امتیاز کی شکل میں برآمد ہوئے ۔ اس عمل میں سب سے بھیانک امتیازی رویہ اختیار کیا گیا ، وہ یہ تھا کہ حلقوں کی حدبندی اس انداز میں کی گئی جس سے مسلم اکثریتی علاقہ تقسیم ہوگئے نتیجہ میں ان کے ووٹ اور رائے دہی کی طاقت کمزور پڑ گئی یعنی مسلمانوں کے ووٹ کئی حصوں میں بٹ کر رہ گئے ۔ مثال کے طورپر اُنھیں ایک حلقہ تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ مسلم رائے دہندوں کو حدبندی کے بہانہ مختلف حلقوں میں بانٹ دیا گیا تاکہ وہ متحدہ طاقت نہ بن سکیں۔
یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ جموں و کشمیر کے خصوصی موقف ختم کرنے یا جموںو کشمیر تشکیل جدید قانون ختم کرنے کے بعد تازہ ترین حد بندی کی گئی جس کے نتیجہ میں نشستوں کی تعداد 83 سے بڑھ کر 90 ہوگئی جبکہ علاقہ جموں میں جہاں اسمبلی حلقوں کی تعداد 37 تھی بڑھ کر 43ہوگئی جس کے نتیجہ میں ریاستی اسمبلی میں علاقہ جموں کے اثر میں اضافہ ہوا (یہ سب اس مسلم اکثریتی علاقہ میں بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ) تاہم حلقوں کی ازسرنو حد بندی کے بعد اسی مسلم اکثریتی وادی میں صرف ایک نشست کا اضافہ ہوا پہلے 46 حلقے تھے بڑھ کر 47 ہوگئے ۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ حد بندی کا نام پر درج فہرست قبائل کیلئے جو 9 نئے حلقوں کو محفوظ قرار دیا گیا ان میں سے 6 مسلم اکثریتی وادی میں اور 3 جموں میں ہے ۔
آسام میں جب 2023 ء کے دوران حد بندی کے تازہ ترین عمل پر عمل آوری کی گئی چند مسائل منظرعام پر آئے ۔ مثال کے طورپر دھبری اور بارپیٹ مسلم اکثریتی حلقے ہوا کرتے تھے ان دونوں حلقوں میں 60 فیصد سے زائدمسلم آبادی پائی جاتی تھی اور ان حلقوں سے ہمیشہ مسلم ارکان پارلیمان منتخب ہوا کرتے تھے لیکن حدبندی کے بارہ بارہ پیٹا ، چنگا ، باغبار اور جانبا کے تین مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں کو DHUBRI منتقل کردیا گیا اس طرح اس میں رائے دہندوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرگئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب صرف ڈھبری پارلیمانی حلقہ واحد مسلم اکثریتی حلقہ رہ گیا جبکہ بارپیٹا حلقے میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد 60 فیصد سے گھٹ کر 35 فیصد ہوگئی ۔
اسی طرح مغربی بنگال میں پارلیمانی حلقہ KATWA میں 40 فیصد سے زائد مسلم آبادی ہے ، 1957 ء سے لیکر 2009 ء تک اس حلقہ سے مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوتا رہا ہے۔ 2009 ء میں اس پارلیمانی حلقہ کو دو لوک سبھا حلقوں سردمامن پوربا اور بردمامن درگاپور میں تقسیم کردیا گیا ۔ ان دونوں حلقوں میں تقریباً 20 فیصد مسلم آبادی ہے ، اس کے علاوہ سردھامن پوربا کو ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ۔ دونوں حلقوں سے کوئی مسلم امیدوار منتخب نہ ہوسکا ۔ بعض صورتوں میں حد بندی کمیشن نے درج فہرست طبقات و قبائل کی آبادی بہت کم رہنے اور مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ رہنے کے باوجود ان حلقوں کو درج فہرست طبقات و قبائل کیلئے محفوظ کردیا نتیجہ میں اسمبلی اور پارلیمان میں مسلم نمائندگی خطرناک حد تک کم ہوگئی ۔ ہم یہاں چند مثالیں پیش کررہے ہیں ۔
اُترپردیش میں ایک پارلیمانی حلقہ نگینہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 47 فیصد اور ایس ٹی ایس سی آبادی 21 فیصد ہے ۔ گجرات کے پارلیمانی حلقہ کچھ میں مسلمانوں کی آبادی 22 فیصد اور ایس سی ایس ٹی آبادی 11 فیصد ہے ، ریاست جھارکھنڈ کا راج محل ایک پارلیمانی حلقہ ہے جہاں کی آبادی میں مسلمان 34فیصد اور درج فہرست طبقات وقبائل 29 فیصد ہیں لیکن ان حلقوں کو ایس سی ایس ٹی کیلئے محفوظ قرار دیا گیا ہے ۔ دوسری طرف بہار کے اسمبلی حلقہ مانی ہار میں مسلمانوں کی آبادی 39 فیصد اور ایس سی ایس ٹی کی آبادی 13 فیصد ہے اس کے باوجود اس حلقہ کو ایس ٹی کیلئے محفوظ قرار دیا گیا، مہاراشٹرا کا ایک حلقہ کرلہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 31 فیصد ایس سی ؍ ایس ٹی کی آبادی 13 فیصد ہے لیکن حلقہ کو ایس سی کیلئے محفوظ کردیا گیا ۔ مغربی بنگال کے حلقہ اسمبلی ناباگرام میں مسلمانوں کی آبادی 53 فیصد اور ایس سی ؍ ایس ٹی کی آبادی 23 فیصد ہے لیکن اسے ایس سی محفوظ حلقہ قرار دیا گیا ۔ ہبلی دھاڑواڑ کرناٹک کا ایک اسمبلی حلقہ ہے اس میں مسلمانوں کی آبادی 41 فیصد اور ایس سی ؍ ایس ٹی آبادی 10 فیصد ہے اس کے باوجود اس حلقہ کو ایس سی کیلئے محفوظ قرار دیا گیا ہے ۔
دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ لوک سبھا ؍ اسمبلی چند حلقوں کو دلتوں اورقبائلوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے محفوظ کیا گیا ۔ جہاں ان طبقات کی قابل لحاظ آبادی ہے لیکن اُنھیں کھلے زمرہ میں رکھا گیا جس کا مقصد ایس سی ؍ ایس ٹی طبقات کے مضبوط لیڈروں کو اُبھرنے یا منظرعام پر آنے سے روکنا ہے ۔ مثال کے طورپر مغربی بنگال کے حاجی پور حلقہ میں ایس سی ؍ ایس ٹی کی آبادی 48.9 فیصد ہے اسے غیرمحفوظ کردیا گیا ۔ بہار کا ایک حلقہ اورنگ آباد ہے جہاں ایس سی ؍ ایس ٹی کی آبادی 29 فیصد ہے اسے بھی غیرمحفوظ کردیا گیا ، کرناٹک حلقہ ہاسن کو بھی غیرمحفوظ کردیا گیا جہاں ایس سی ؍ ایس ٹی آبادی 20 فیصد ہے ۔ اسمبلی حلقوں کا جہاں تک سوال ہے مغربی بنگال کے نتاباری ( ایس سی ؍ ایس ٹی آبادی 42فیصد ) پھر بھی غیرمحفوظ کردی گئی ۔ مہاراشٹرا کے حلقہ اسمبلی بدنیرا میں 27 فیصد ایس سی ؍ ایس ٹی آبادی ہے لیکن وہ بھی غیرمحفوظ کردی گئی ۔ آسام کے کٹی گورہ حلقہ میں 21 فیصد ایس سی ؍ ایس ٹی آبادی ہے اسے بھی غیرمحفوظ کردیا گیا ہے۔
اب بات کرتے ہیں نئی حد بندی کی جنوبی ہند کی ریاستوں پر ہونے والے اثرات کی ۔ اگر پارلیمنٹ کی موجودہ 543 نشستوں کو برقرار رکھا جاتا ہے تو اُترپردیش جہاں پارلیمانی حلقوں کی تعداد 80 ہے بڑھکر 91 ہوجائے گی۔ اس طرح اُسے گیارہ حلقوں کا فائدہ ہوگا ۔ بہار جہاں پارلیمانی حلقوں کی تعداد 40 ہے وہ بڑھ کر 50 ہوجائے گی ۔ اس طرح وہاں 10 حلقوں کا اضافہ ہوگا ۔ راجستھان میں فی الوقت 25 حلقہ ہیں وہ بڑھکر 31 ہوجائیں گے وہاں 6 نشستوں کا اضافہ ہوگا ۔ کرناٹک جہاں فی الوقت 28 حلقے ہیں بڑھ کر 31 ہوجائیں گے 3 کا اضافہ ہوگا ۔ ٹاملناڈو جہاں پارلیمانی حلقوں کی تعداد 39 ہے گھٹ کر 31 ہوجائے گی ، اس ریاست کو 8 حلقوں کا نقصان ہوگا ۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ جہاں حلقوں کی تعداد 42 ہے گھٹ کر 34 ہوجائے گی 8 کا نقصان ہوگا ۔ کیرالا کے 20 پارلیمانی حلقہ کم ہوکر 12 ہوجائیں گے اسے 8حلقوں کا نقصان ہوگا اور اگر پارلیمانی حلقوں کی تعداد 543سے بڑھاکر 848 کردی جائے گی تو پھر یوپی کے حلقے 80سے بڑھکر 143 ( 63 کا اضافہ ) ، بہار 40 سے 79 ( 39کا اضافہ ) ، کرناٹک 28 سے بڑھکر 41 ( 13کا اضافہ ) ، ٹاملناڈو 39 سے بڑھکر 49 (10 کا فائدہ ) ، آندھراپردیش ۔ تلنگانہ 42 سے بڑھکر 54 (12 کا اضافہ ) اور کیرالا 20 کے 20 حلقے ہوں گے ۔