وینا نائر
پہلگام دہشت گردانہ واقعہ کو لیکر ہندوستان اور پاکستان میں کشیدگی اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ ہندوستان نے سندھ ۔ طاس آبی معاہدہ کو معطل کرکے پانی بند کرنے کااعلان کیاہے اور یہ ایسا اقدام ہے جس سے پاکستان تلملا اُٹھا ہے ۔ ویسے بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک نہیں دو نہیں بلکہ تقریباً 40 دو طرفہ معاہدات ہیں جن میں دیکھا جائے تو ہر معاہدہ کافی اہمیت رکھتا ہے چاہے وہ تجارتی معاہدہ ہو ، یا ویزوں کے حصول ، جوہری اسلحہ کی فہرست کے تبادلہ ، جوہری تجربات کے بارے میں قبل از وقت آگاہ کرنے سے لیکر پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ ۔ طاس معاہدہ ، شملہ اور تاشقند معاہدوں اور لاہور اعلامیہ پر مشتمل ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان 40 معاہدات میں کشمیر اُمو رپر باہمی تعاون و اشتراک کا معاہدہ بھی شامل ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے معاہدات میں بیلسٹک میزائل کے تجربات میں پیشگی اطلاع کا معاہدہ بھی بہت اہم ہے ۔ ساتھ ہی جوہری تنصیبات پر حملہ کی ممانعت کا معاہدہ بھی اہم ہے ۔ آج جس معاہدہ کی گونج سنائی دیتی ہے وہ سندھ ۔ طاس معاہدہ ہے ۔ فی الوقت ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر سندھ ۔ طاس معاہدہ کیا ہے؟
بی بی سی کے مطابق ہندوستان اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لئے ستمبر 1960 ء میں سندھ ۔ طاس آبی معاہدہ کیا تھا یہ معاہدہ تقریباً 9 سال تک جاری رہے مذاکرات کے بعد عالمی بنک کی ثالثی میں طئے پایا ۔ 1960 ء میں ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل ایوب خاں نے پاکستان کے اقتصادی دارالحکومت کراچی میں اُس معاہدہ پر دستخط کئے ۔ سندھ ۔ طاس معاہدہ کے بارے میں یہ اُمید ظاہر کی گئی تھی کہ دونوں ملک کے کسانوں کیلئے یہ معاہدہ خوشحالی لائے گا اور اُن کی ترقی کی راہ ہموار کرے گا ۔ ساتھ ہی یہ معاہدہ امن خیرسگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کئی جنگوں اور شدید اختلافات کے باوجود 60 برسوں سے یہ معاہدہ قائم ہے ۔ہندوستان اور پاکستان کا سندھ ۔ طاس پانی میں کیا حصہ ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سندھ ۔ طاس معاہدہ کے تحت ہندوستان کو تین دریاؤں بیاس ، راوی اور ستلج کے پانی پر مکمل اختیار حاصل ہے جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کو دریاؤں کے بہتے پانی سے بجلی کی پیداوار کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اُس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بناسکتا ۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی ، بیاس اور ستلج پر کسی بھی طرح کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جس پر پاکستان اعتراض نہیں کرسکتا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ معاہدہ کے تحت ایک مستقل سندھ ۔ طاس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کیلئے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلہ کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدہ کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں ۔
اس معاہدہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ معاہدہ میں ماہرین کی مدد حاصل کرنے یا تنازعات کاحل تلاش کرنے کیلئے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1955 ، 1957 اور 1959 ء میں بھی دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق عارضی بنیادوں پر معاہدات ہوئے اور ان ہی معاہدات کی بنیاد پر سندھ ۔ طاس آبی معاہدہ کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ بہرحال پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہندوستان نے اپنے پڑوسی پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد کیا ۔ ہندوستان نے اس واقعہ پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اٹاری ۔ واگھا سرحدی چیک پوسٹ کو بند کرنے ، پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کرنے اور ہندوستان میں تعینات بے شمار پاکستانی عہدیداروں کو ملک سے نکل جانے کے بشمول کئی ایک سفارتی اقدامات کا اعلان کیا تاہم سب سے اہم بلکہ پاکستان کیلئے خطرناک قدم سندھ ۔ طاس آبی معاہدہ کو معطل کرنا تھا اور یہ ایک ایسا قدم ہے جو پاکستان کو اقتصادی طورپر ایک ایسے وقت بہت زیادہ متاثر کرسکتا ہے جب کہ اُس مسلم اکثریتی ملک کو پہلے ہی سے کئی بحرانوں کا سامنا ہے ۔ خاص طورپر پاکستان کی معیشت پہلے ہی سے کمزور ہے ۔ ہندوستان نے سندھ ۔ طاس آبی معاہدہ کو معطل کرکے ایک طرح سے پاکستان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ۔ معتمد خارجہ وکرم مسری نے 23 اپریل کو پرزور انداز میں کہا کہ 1960 ء کا سندھ ۔ طاس ابی معاہدہ اُس وقت تک معطل رہے گا جب تک کہ پاکستان قابل اعتبار اور اٹل طورپر سرحدپار دہشت گردی کی تائید و حمایت سے دستبردار نہیں ہوجاتا ہے۔
جمعرات 25 اپریل کو ہندوستانی آبی وسائل کی معتمد دیپاشری مکھرجی نے اپنے پاکستانی ہم منصوب سید علی مرتضیٰ کو موسومہ مکتوب میں کچھ یوں کہا : ’’نیک نیتی کے ساتھ معاہدے کا احترام کرنے کی ذمہ داری ایک معاہدہ کی بنیادی حیثیت رکھتی ہے لیکن جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اس کی بجائے پاکستان کی طرف سے جموں اور جموں مرکزی زیرانتظام علاقہ کو نشانہ بناکر سرحد پار سے دہشت گردی کی جارہی ہے نتیجہ میں سکیورٹی کی غیریقینی صورتحال نے معاہدے کے تحت ہندوستان کے اپنے حقوق کے مکمل استعمال میں براہ راست رکاوٹیں ڈالی ہیں ۔ حکومت ہند نے اس طرح فیصلہ کیا ہے کہ سندھ آبی معاہدہ 1960 ء کو فوری طورپر التواء میں رکھا جائے گا‘‘ ۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے ؟
آزادی کے وقت جو نوتشکیل شدہ ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی حد بندی سندھ ۔ طاس سے ہوتی ہوئی ہندوستان کو بالائی دریا کے طورپر اور پاکستان کو زیریں دریا کی ریاست کے طورپر چھوڑدیا ۔ آبپاشی کے دو اہم کام ایک راوی پر مادھوپور میں اور دوسرا ستلج پر فیروزپور میں جس پر پاکستان کی طرف کا پنجاب مکمل طورپر منحصر تھا ۔ ہندوستانی علاقہ میں ختم ہوا اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ بنیادی سہولتوں سے آبپاشی کے پانی کے استعمال پر تنازع پیدا ہوا ۔
عالمی بنک برائے تعمیرنو و ترقی ( جو اب عالمی بنک گروپ کا حصہ ہے ) کی طرف سے سہولت کاری کی گئی اور بات چیت کے بعد 19 ستمبر 1960 ء کو ہندوستان ۔ پاکستان کے سربراہان ، وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور صدر ایوب خان نے اس معاہدہ پر دستخط کئے جس کے بارے میں ہم نے سطور بالا میں آپ کو بتایا ہے ۔ معاہدہ کی شقوں کے مطابق سندھ ۔ طاس کا 30 فیصد حصہ ہندوستان اور مابقی پاکستان کا ہے ۔اگرچہ یہ معاہدہ دریا کے پانی کے کنٹرول کو دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے لیکن یہ اب بھی سخت قوانین کے تحت ہر فریق کو مخصوص مقاصد جیسے زراعت یا ہائیڈرو پاور کیلئے دوسرے کے نامزد پانیوں تک محدود رسائی کی اجازت دیتا ہے ۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2024 ء کے مطابق اس کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 23فیصد ہے جبکہ روزگار 7.4 فیصد حصہ ادا کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت کا انحصار براہ راست اور بالواسطہ طورپر زراعت پر ہے ۔ پاکستان زراعت اور دریاؤں جہلم ، چناب ، راوی ، بیاس اور ستلج سے بجلی کی کھپت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے ۔ اس کے پاس پانی کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے ۔ پاکستان پہلے ہی مہنگائی اور کمزور معیشت کی زد میں ہے ۔ معاہدہ کو معطل کرنے سے بحران مزید بڑھ جائے گا لیکن معاہدہ کی معطلی کا پاکستان پر فوری اثر نہیں پڑے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان بالائی دریا سے جبکہ پاکستان نچلی دریاہے ۔ اگرچہ ہندوستان دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے لیکن وہ مشنری کی کمی کی وجہ سے پانی کو موڑ نہیں سکتا یا ذخیرہ نہیں کرسکتا ۔ مزید براں یہ کہ مئی اور ستمبر کے درمیان سالانہ گلیشیرس پگھلنے سے پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے جو ابھی جاری رہیگا ۔
کیا ہندوستان معاہدہ منسوخ کرسکتا ہے ؟ اس کا آسان الفاظ میں جواب ہے نہیں ! سندھ ۔ طاس آبی معاہدہ میں کوئی ایگزٹ کی شق نہیں ہے باالفاظ دیگر نہ تو ہندوستان اور نہ ہی پاکستان اسے قانونی طورپر یکطرفہ طورپر منسوخ کرسکتے ہیں ۔ معاہدہ میں صرف باہمی رضامندی سے ترمیم کی جاسکتی ہے ۔
پاکستانی وکیل احمر بلال صوفی نے الجزیرہ کو بتایا کہ معاہدہ کو معطل کرکے ہندوستان نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جہاں بالائی دریا زیریں دریا کو پانی کے بہاؤ کو من مانی طورپر نہیں روک سکتا ۔ ویسے بھی سندھ ۔ طاس معاہدہ کی معطلی ایسے وقت ہوئی جب ہندوستان گزشتہ تین برسوں سے پاکستان پر سندھ طاس معاہدہ پر ترمیم کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے ۔ ایک اور بات یہ ہیکہ نئے ڈیم بناکر مغربی دریاؤں ( جہلم ، چناب اور سندھ ) میں آبی وسائل حاصل کرنے میں ہندوستان کا ہاتھ ہوگا اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اس طرح خطہ میں طاقت کے توازن کو ممکنہ طورپر تبدیل کردیا جائے گا ۔