اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کو ملک کی فوج کا ”منتخب“ لیڈر پکارے جانے کے بعد‘ مذکورہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر پر یہاں وضاحت پر امتناع عائد کردیاہے
اسلام آباد۔پاکستانی پارلیمنٹ اجلاسوں کے ارد گرد الفاظ تیزی کے ساتھ خوف کے ماحول میں گشت کررہے ہیں۔ لہذا جب ایک سینئر لیڈر نے ایک مخصوص فقرہ کے لئے حد مقرر کرنے کااعلان کیا‘ تو یہ واضح ہوگیا کہ بے شمار الفاظوں کی جنگ کی شروعات ہوجائے گی۔
وہ فقرہ ہے”منتخب وزیراعظم“ اور جب اپوزیشن سیاسی قائدین اورکارکنوں نے اس کو وزیراعظم عمران خان سے منسوب کیا ہے تو یہ واضح ہے کہ‘
ان کی انتخابی جیت ملک کی طاقتور فوج نے تشکیل دی ہے‘ جس نے رائے دہی سے کئی ماہ قبل اپوزیشن جماعتوں او رمیڈیا کو راست طور پر نشانہ بنانا شروع کردیاتھا۔
تقریبا ایک سال سے اس فقرہ کو قومی اسمبلی میں سننے کے بعد مذکورہ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے لئے یہ کافی تھا۔
اعلان کیاکہ ان عمران خان اور ان کی پارٹی صدر کو ”منتخب“ لیڈرپکارنا ان کی توہین ہے‘ انہوں نے اتوار کے روز اسمبلی اجلاس کے دوران بلا کسی عذر کے اس فقرہ پر امتناع عائدکردیا ہے۔
انہوں نے گرجدار آواز میں کہاکہ یہ ایوان عوامی رائے سے منتخب نمائندوں کا ہے”اس طرح کے اظہار کا آج کے بعد سے کوئی استعمال نہیں کرے گا“۔یقینا وہ غلط تھے۔
پیر کے روز معاملے کو آگے لے جانے میں کسی نے دیر نہیں کی۔
مریم اورنگ زیب اپوزیشن لیڈر نے فوری طو رپر سوری کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے خان کو بطور ”منتخب“ پکارنے کے اپنے عمل کو جاری رکھا اور انہوں نے اسکے لئے دوسرے حربہ کا استعمال کیا اور وزیراعظم کے متعلق ”ہاتھوں سے اٹھایا“ ہوا قراردیا۔
چاہئے وہ احکامات کو مستر د کردیں‘ الفاظوں کی تلاش کریں یا پھر امتناع کی درست انداز میں حمایت کریں‘ قانون سازاب اس حکم کو خود سے بحث کا مرکز توجہہ بنارہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری نے سوال کیا کہ آیا کسی ایک عہدیدارکے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ساری پارلیمنٹ میں الفاظ پر امتناع عائد کرے۔
زارداری وہ قانون ساز ہے جس کو پچھلے سال خان کے متعلق اس فقرے کا استعمال کا اعزا ز ہے‘ وہ بھی اس وقت جب پاکستان تحریک انصاف جدوجہد کررہی تھی۔
زرداری نے پیر کے روز کہاکہ ”وزیراعظم کے غرور کی وجہہ سے‘ اپ نے اس لفظ پر امتنا ع عائد کیاہے“ اور اس اقدام کوسنسر شپ قراردیا۔
انہوں نے کہاکہ ”قومی اسمبلی کے اراکین کویہ کس قسم کی آزادی ہے جوایوان میں اپنے آپ کوظاہر نہیں کرسکتے؟“۔