پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
بجٹ 2023-24ء میں حکومت نے این ٹی آر (New Tax Regime) کو ایک پرکشش انداز میں پیش کیا ہے اور ٹیکس دہندگان کو پرانے طرز محاصل Old Tex Regime (OTR) چھوڑ کر این ٹی آر اپنانے کی تلقین کی۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ ان کے پانچ اعلانات بنیادی طور پر ہمارے محنتی متوسط طبقہ کو فائدہ پہنچائیں گے۔ وزیر فینانس نے متوسط طبقہ کو فائدہ پہنچانے کی بات تو کی لیکن انہوں نے متوسط طبقہ کی تعریف نہیں کی کہ آخر ان کی نظر میں متوسط طبقہ کون ہے؟ ہاں ان کی حکومت نے معاشی طور پر کمزور طبقات (EWS) کی تعریف کی اور اعلان کیا ہے کہ جس خاندان کی سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپئے سے کم ہوگی، وہ خاندان معاشی طور پر پسماندہ یا کمزور EWS زمرہ میں آئے گا۔ یہ دراصل اجئے بھوشن پانڈے کمیشن کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کی بنیاد پر ہے۔ ایسے میں ہم فرض کرسکتے ہیں کہ EWS کے تحت آنے والے تمام خاندان غریب ہیں۔
متوسط طبقہ کون ہے؟
پیوپلز ریسرچ آن انڈیا کنزیومر اکنامی (Price) کی جانب سے کئے گئے ایک اور جائزہ یا تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں 31% گھرانوں کی سالانہ آمدنی 5 سے 30 لاکھ روپئے کے درمیان ہے اور ان کی متوسط طبقہ کے طور پر درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ ایسے تقریباً 28 کروڑ گھرانے ہیں۔ ایک گھرانے کی صرف زرعی آمدنی ہوسکتی ہے یا وہ گھر ایک سے زائد آمدنی والے افراد پر مشتمل ہوسکتا ہے لیکن ان میں تمام کے تمام انکم ٹیکس ادا کرنے والے نہیں ہوسکتے۔ مالی سال 2017-18 میں محکمہ انکم ٹیکس نے انکشاف کیا تھا کہ 1,47,54,245 افراد نے 5 تا 10 لاکھ روپئے کی سالانہ آمدنی پر ریٹرنس داخل کئے جبکہ 45,08,722 افراد ایسے تھے جنہوں نے 10 تا 25 لاکھ روپئے سالانہ آمدنی پر ریٹرنس کا ادخال عمل میں لایا۔ اس طرح جملہ 2 کروڑ افراد نے ریٹرنس داخل کئے اور تب سے ہوسکتا ہے کہ انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہوگا۔ ہمارے مقصد کیلئے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ انکم ٹیکس فائل کرنے والے کتنے لوگ اپنی سالانہ آمدنی 8 تا 30 لاکھ روپئے کا انکشاف کرتے ہیں۔ مختلف ڈیٹا پوائنٹس کی بنیاد پر اس سلسلے میں میرا تخمینہ زیادہ سے زیادہ 3 کروڑ افراد ہے۔ وزیر فینانس کا دعویٰ ہے کہ نئے ٹیکس قواعد NTR کے تحت ایسے افراد کو راحت دی گئی ہے۔
کئی اخبارات نے (2 فروری) کو متعدد جدول شائع کئے جس میں اولڈ ٹیکس ریجیم OTR اور نیو ٹیکس ریجیم NTR کے تحت آمدنی کے مختلف درجوں سے تعلق رکھنے والوں کی ٹیکس ذمہ داریوں کا نہ صرف حساب لگایا گیا بلکہ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ OTR کس سطح تک بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔انگریزی کے موقر روزنامہ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق NTR کی بہ نسبت OTR بہت زیادہ فائدہ مند ہیں اور اس میں Tax Liability بہت کم ہے۔ 15 لاکھ روپئے کی آمدنی کی سطح تک (جدول وہاں رُک جاتا ہے) دوسری طرف انگریزی کا ایک اور موقر اخبار ’’دی ہندو‘‘اسے 35 لاکھ روپئے بتاتا ہے۔ ’’اکنامک ٹائمس‘‘ اسے 60 لاکھ روپئے ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے اخبارات نے بھی اس قسم کے جدول شائع کئے جہاں تک بزرگ شہریوں اور سپر سینئر سٹیزنس کا سوال ہے، ان کیلئے OTR ان سطحوں پر نمایاں طور پر اعلیٰ ہے لیکن حیرت و دلچسپی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ان رپورٹس یا جدول Tables کی تردید نہیں کی۔ میرے سامنے احمدآباد کے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی جانب سے تیار کردہ ایکسل شیٹ ہے جس میں تنخواہ کی آمدنی Salary Income، معیاری تخفیف ، پیشہ وارانہ محاصل ، دفعات 80C اور80D کے تحت تخفیف اور ہاؤزنگ لون پر ادا کردہ سود (2 لاکھ روپئے سالانہ) کیلئے تخفیف دکھائی گئی ہے۔ 30 لاکھ روپئے کی آمدنی تک ہر سطح پر OTR بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔ اگر کاروبار اور دیگر آمدنی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ OTR دس لاکھ روپئے کی سطح تک بہت زیادہ فائدہ بخش ہے اور ٹیکس Liability ، 15 لاکھ روپئے تا 30 لاکھ روپئے کی سطحوں پر مساوی ہوجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ OTR متوسط طبقہ کیلئے بہت زیادہ فائدہ بخش ہے جیسا کہ اس کی تعریف و توضیح کی گئی۔ حکومت کا یہ استدلال ہے کہ NTR کے تحت متوسط طبقہ کے ٹیکس دہندگان کم ٹیکس ادا کریں گے۔ حکومت کا یہ استدلال عملی طور پر غلط ہے۔
بچتوں کو الوداع
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا ٹیکس دہندہ کے نقطہ نظر سے اگر وہ بچت اور خرچ کرتا ہے یا صرف خرچ کرتا ہے تو کیا یہ سمجھداری اور فائدہ بخش ہے؟ جہاں تک گھریلو بچت کا سوال ہے، ترقی پذیر ملکوں میں گھریلو بچت کی اہمیت و افادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے جبکہ حکومت کی طرف سے ہمارے شہریوں کی اکثریت کو بہت ہی کم یا صفر سماجی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی لئے 75 برسوں سے حکومت نے گھریلو بچت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ گھریلو بچت اور کارپوریٹ بچت خانگی سرمایہ کا بنیادی حصہ ہیں جنہیں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں تک عوام کا سوال ہے۔ بچت ایک فطری عمل ہے۔ بچت کے معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی ضروری ہے۔ ایسے میں حکومت، ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعہ افراد اور کارپوریشنوں کو مخصوص آلات یا اثاثے جات میں بچت کی ترغیب دیتی ہے۔بی جے پی حکومت نے معیشت ، معاشی ترقی سے متعلق فلسفہ کو اپنی کامیابی سے تعبیر کیا ہے اور اس نے کامیابی کے جو بھی دعوے کئے، اپنے سر باندھے ہیں۔ اس کے دعوؤں کا مطلب یہی ہے کہ مصارف ملک کی معیشت کیلئے بہتر ہے۔ راقم لوگوں کے خرچ کرنے کی صلاحیتوں پر سوال نہیں اُٹھاتا ، لیکن مصارف کو بچت کے ساتھ متوازن ہونا چاہئے۔ آج کل یہ مشورہ عام ہوگیا ہے کہ بچت اور خرچ کریں۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر مشورہ تو یہ ہے کہ اس طرح خرچ کریں جیسے کوئی کل نہیں ہے۔ راقم نے احمدآباد کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ایکسل شیٹ کا جائزہ لیا ہے جس سے بچت اور Disposable Income کے درمیان توازن پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر OTR کے تحت اثاثے رکھنے والا کم ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس طرح بچتوں اور محصولات کی منہائی کے بعد خرچ کیلئے دستیاب آمدنی کے درمیان توازن پایا جاتا ہے لیکن NTR اس کے برعکس ہے۔ اس میں اثاثے رکھنے والے کے پاس ایک بڑی Disposable Income ہوتی ہے لیکن کوئی بچت نہیں ہوتی۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت کے ارادے اور اس کی نیت واضح ہے جہاں تک میرا سوال ہے میں کم ٹیکس اور چند استثنیٰ پر مبنی Tax Regime میں یقین رکھتا ہوں کیونکہ اس سے نہ صرف بچت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ خرچ کیلئے کافی Disposable Income باقی رہ جائے گی۔ اگر دیکھا جائے تو OTR کے تحت ٹیکس کی مارجنل شرح 42.72% ہے جبکہ NTR کے تحت وہ 39% ہے۔ ان شرحوں سے Low Tax Regime (LTR) سے متعلق جو فسانہ گھڑا گیا، وہ بے نقاب ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ حکومت نے پسند باانتخاب ٹیکس دہندگان پر چھوڑا ہے لیکن کب تک یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔