آدمی سے آدمی کی جب نہ حاجت ہو روا

   

محمد مصطفی علی سروری
بنگلور سے 335 کیلو میٹر دور واقع کرناٹک کے ہاویری ضلع کا واقعہ ہے جہاں کے سرکاری دواخانے میں لکشمی نام کی حاملہ خاتون نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔ 27؍ جنوری بروز پیر ان بچوں کی پیدائش کے بعد ڈاکٹرس نے ان کی صحت کو تشویشناک قرار دے دیا اور ان کے فوری علاج کے لیے ان بچوں کو 80 کیلو میٹر دور ہبلی کے KIMS دواخانے کو لے جانے کا مشورہ دیا۔
ڈاکٹرس نے یہ بھی واضح کردیا کہ 80 کیلومیٹر کا راستہ طبی عملے کے ساتھ اور صرف ایمبولنس سے ہی طئے کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے دو شرائط تھیں جن کے بغیر نو مولود بچوں کو بچانا مشکل سمجھا جارہا تھا اول تو ہبلی تک جانے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ دوم ایمبولنس کا ڈرائیور ماہر ہو جو احتیاط کے ساتھ مگر تیز رفتاری سے گاڑی چلاسکے۔ راستے میں ٹریفک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹریفک پولیس کی مدد لی گئی۔ پولیس والوں کو بتلایا گیا کہ جڑواں بچوں کی طبیعت کس قدر خراب ہے اور انہیں جلد سے جلد بڑے دواخانے کو لے جانا ضروری ہے۔ پولیس کی مدد مل جانے کے بعد اب ایمبولنس کے لیے ایک بہترین ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ لکشمی کے دونومولود بچوں کی جان بچانے کے لیے آخرکار جس ڈرائیور کا انتخاب کیا گیا وہ ایک مسلمان توفیق پٹھان تھا۔
اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس 28؍ جنوری 2020 کی رپورٹ کے مطابق کرناٹک کے ہاویری ضلع کی پولیس نے اپنے ضلع کے حدود میں دواخانے کی ایمبولنس کو پولیس اسکارٹ دینے سے اتفاق کیا تاکہ ایمبولنس گذرنے کے راستے کسی طرح کی ٹریفک کا مسئلہ پیش نہ آئے۔ ہاویری ضلع کے علاوہ دھارواڑ ضلع کی پولیس نے ایمبولنس کو اپنے ضلعی حدود میں داخل ہونے پر اسکارٹ فراہم کیا۔ پولیس کے اسکارٹ کے انتظام ہوتے ہی ایمبولنس کے ڈرائیور توفیق پٹھان کا امتحان شروع ہوگیا۔ ہاویری پولیس کی تیز رفتار گاڑی آگے آگے اور اس کے پیچھے توفیق پٹھان نے ایمبولنس چلانا شروع کیا۔ ایمبولنس میں لکشمی کے دونوں جڑواں بچے موجود تھے۔ ہاویری پولیس کے اسکارٹ نے ایمبولنس کو شگون علاقے تک پہنچایا۔ وہاں سے شگون پولیس کی ویان نے اسکارٹ دینا شروع کیا۔ شگون علاقے کے باہر جب ایمبولنس ہبلی کے حدود میں داخل ہوئی تو اسکارٹ کی ذمہ داری ہبلی پولیس نے سنبھال لی۔ پولیس کی گاڑی کے سائرن اور پیچھے توفیق پٹھان کی ایمبولنس سیدھے ہبلی کے KIMS دواخانے جاکر ہی رکی۔جہاں پر دواخانہ کا اسٹاف پہلے سے تیار کھڑا تھا تاکہ لکشمی کے دونوں نومولود بچوں کی جان بچاسکے۔
پولیس کے تین الگ الگ اسکارٹس بدلے لیکن ایمبولنس کے ڈرائیور کی سیٹ پر ایک ہی شخص بیٹھا رہا جس کا نام توفیق پٹھان تھا۔ قارئین بظاہر تو یہ 80 کیلو میٹر کا سفر تھا لیکن میڈیکل فیلڈ کے لوگ ہی بہتر جانتے ہیں کہ زندگی بچانے کی دوڑ میں ایک ایک منٹ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ خاص بات یہ رہی کہ توفیق پٹھان نے ایک منٹ میں تقریباً دیڑھ کیلومیٹر کی رفتار سے ایمبولنس چلائی اور 50 منٹوں میں ہاویری کے ضلع اسپتال سے دو نومولود بچوں کو ہبلی کے KIMS دواخانے تک پہنچادیا۔ گاڑی چلانا الگ بات ہے ایمبولنس تیز بھی چلانا اور احتیاط بھی برتنا یہ کس قدر اہم کام تھا اس کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس خبر کو اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس نے اس سرخی کے ساتھ شائع کیا۔

“80KM in 50 Minutes, Karnataka Ambulance driver pull off impossible task to save twins” ۔
یہ فروری 1992ء کی بات ہے جب محمد شریف کے 25 سالہ بیٹے محمد رئیس خان نے اپنے والد سے روزگار کی تلاش میں اپنے گھر کو چھوڑ کر سلطان پور جانے کی اجازت لی۔ فیض آباد سے رئیس خان نے روزگار کے لیے سلطان پور کا رخ تو کیا مگر رئیس خان کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کو روزگار ملا یا نہیں؟ اس کے متعلق محمد شریف کو کوئی پتہ نہیں لگا۔ ایسے ہی ایک مہینہ بیت گیا لیکن رئیس خان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ہاں اگر کسی بات کا پتہ چلا تو وہ یہ بات معلوم ہوئی رئیس خان کو کسی نے قتل کرنے کے بعد اس کی نعش کو ایک تھیلے میں بند کر کے پھینک دیا جس کو آوارہ جانور کھارہے تھے۔ محمد شریف کو اپنے نوجوان بیٹے سے بہت ساری توقعات تھیں۔ وہ تو خود یو پی کے فیض آباد میں سائیکل کی مرمت کا کام کرتے تھے۔ ان کو امید تھی کہ ان کا بیٹا کیمسٹ کے طور پر میڈیکل شاپ میں کام کرے گا تو ان کا کفیل بن کر ان کے ہاتھ بٹائے گا۔مگر محمد شریف کو ایک مہینے کے بعد اگر کچھ خبر ملی تو وہ یہ خبر کہ ان کے بیٹے کا قتل ہوگیا اور اس کی نعش آوارہ جانور نوچ رہے ہیں۔ پیشہ کے اعتبار سے تو شریف صاحب سائیکل میکانک تھے مگر انہوں نے اپنے دل میں عزم کرلیا کہ اب کوئی نعش لاوارث نہیں رہے گی اور نہ کسی نعش کو جانور کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے گا۔
عجیب بات تھی۔ حالانکہ محمد شریف نے اپنا جوان بیٹا گنوادیا تھا لیکن اپنے بیٹے کی موت کے بعد بھی ان کو ایک نئی تحریک ملی۔ انہوں نے طئے کرلیا کہ اب وہ کسی بھی نعش کو لاوارث نعش کے طور پر نہیں چھوڑ سکتے اور ہر لاوارث نعش کو اپنے بیٹے کی نعش کی طرح آخری رسومات ادا کریں گے۔ قارئین اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بظاہر تو محمد شریف کے ہاں کوئی مضبوط مالی وسائل اور اثاثہ جات نہیں تھے۔ صرف ایک نیک ارادہ اور اس بات کا غم تھا کہ ان کے بیٹے کی نعش قتل کردیئے جانے کے بعد بھی سڑکوں پر پڑی رہی۔ انہوں نے تہیہ کرلیا کہ اب ان کے جیتے جی ایسی صورتحال کسی بھی نعش کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے اسی ارادہ اور عزم کا نتیجہ ہے کہ 27 برسوں کا طویل عرصہ بیت گیا۔ مگر محمد شریف اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ سال 2020ء میں ان کی عمر 82 برسوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ شریف صاحب ابھی تک 3000 لاوارث غیر مسلم حضرات کی نعشوں کی آخری رسومات انجام دے چکے ہیں اور لاوارث مسلم حضرات کی نعشوں کی تعداد 250 ہوچکی ہے۔ جن کی آخری رسومات محمد شریف نے خود ادا کیں۔ اتنا ہی نہیں ان نامعلوم لاوارث نعشوں کوغسل دینے کا کام بھی شریف صاحب خود انجام دیتے ہیں۔
فیض آباد کے 82 سالہ محمد شریف آج دو ہی کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یا تو وہ اپنے سائیکل مرمت کی دوکان پر ہوتے ہیں یا پھر لاوارث نعشوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ پولیس اسٹیشن جانا، دواخانوں کو جانا، ریلوے اسٹیشن اور مردہ خانوں کو جانا، ان کے معمولات میں شامل ہیں۔ شریف چاچا کی اس انفرادی غیر معمولی انسانیت کی خدمات کا اعتراف اس برس حکومت ہند نے بھی کیا اور جب 25 ؍ جنوری 2020ء کو اس برس پدم شری حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تو اس میں فیض آباد کے محمد شریف صاحب کا بھی نام شامل تھا۔ جو اپنے علاقے میں شریف چاچا کے نام سے مشہور ہیں۔ (اخبار ۔ ٹائمز آف انڈیا ۔ 25؍ جنوری 2020)
قارئین ملک کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کے کام کریں۔ کیونکہ جتنا اہم کام اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہے اتنا ہی اہم کام نبی رحمتؐ کے پیغامِ محبت کو برادران وطن تک پہنچانا ہے۔
یقینا بہت سارے ادارے، انجمنیں اور افرد اسلام کی دعوت دیگر لوگوں تک پہنچانے کے لیے اسلامی لٹریچر اور قرآن مجید کے نسخے غیر مسلم افراد میں تقسیم کرتے آرہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کے خلاف جس طرح کا زہر آلود ماحول عام کردیا ہے ایسے میں ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ وہ اپنی ذات سے ہر ممکنہ کوشش کرے اور مسلمانوں کے متعلق مثبت اور خوشگوار تاثرات و تعلقات عام کرنے کے لیے اپنے حصہ کی شمع روشن کرے۔
عام مسلمان جب وہ اپنے حلیہ سے بھی پہچانا جائے، سڑک پر نکلے تو قوانین کا احترام کرے۔ ہر اس کام سے بچے جس سے لوگوں میں غلط تاثر عام ہو۔
مساجد کے باہر پارکنگ کا خاص خیال رکھے کہ اس کی پارکنگ کسی کو بھی سڑک پر گذرنے اور فٹ پاتھ پر چلنے میں تکلیف نہ دے۔
معاملات میں اپنے وعدے، اپنی زبان اور ایمانداری و شرافت کا دامن کسی حال بھی ترک نہ کرے۔ بین مذہبی نفرت و منافرت کے کسی پیغام، مسیج اور ویڈیو کو ہرگز آگے نہ بھیجیں۔
قارئین، میں اور کیا بتائوں محلے کی مسجد کے مولوی صاحب ہر جمعہ کو اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کے لیے جو نصیحتیں کرتے ہیں کم سے کم انہی کی پاسداری کرلیں۔ بقول ایک مولوی صاحب، اب تو مساجد سے جمعہ کے خطبہ میں مسلمانوں کو اپنے گاڑیوں کی پارکنگ کے ساتھ اپنی گاڑیوں کا ہارن بھی بہت ہی احتیاط سے استعمال کرنے کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔
کیا آپ نے اپنے بچوں کو اس حوالے سے تربیت کے بارے میں کچھ کیا ہے کہ نبیؐ نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی زیادہ تلقین کی ہے اور پڑوسی سے مراد صرف مسلم پڑوسی نہیں لیا گیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور سبھی قارئین کو اپنے اخلاق و کردار اور اپنے بچوں، متعلقین کے اخلاق و کردار کے حوالے سے دعائوں کے علاوہ تربیت کا سامان کرنے والا بنادے۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com