کانگریس میں اقلیتی قائدین نظر انداز، اپنے گھر میں بیگانگی کا احساس

   

ریونت ریڈی ٹیم کا کنٹرول، قائدین سے واقفیت نہیں، ترجمانوں کے تقررات میں ناانصافی
حیدرآباد۔/13اکٹوبر، ( سیاست نیوز) سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کیلئے اقلیتوں کی تائید تو چاہیئے لیکن پارٹی میں موجود اقلیتی قائدین کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ محض زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ 2014 میں تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد اقتدار سے محروم کانگریس پارٹی نے 2023 اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کا ابھی سے آغاز کردیا ہے اور شعلہ بیان مقرر ریونت ریڈی کو پارٹی کی کمان سونپی گئی۔ ریونت ریڈی نے جائزہ حاصل کرنے کے بعد سے سماج کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کی ہے لیکن پارٹی میں اقلیتی قائدین کو ایک طرف مناسب نمائندگی نہیں ملی تو دوسری طرف پارٹی سرگرمیوں میں انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ کانگریس ہائی کمان نے 26 جون کو نئے صدر کے علاوہ 5 ورکنگ پریسیڈنٹس اور 10 سینئر نائب صدور کے ناموں کا اعلان کیا لیکن دونوں عہدوں میں مسلم اقلیت کے نمائندگی محض ایک سے زائد نہیں ہے۔ پارٹی نے تشہیری کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے مسلم اقلیت کے قائد کو مقرر کیا۔ نئی کمیٹی کی تشکیل کے بعد سابقہ کمیٹی عملاً تحلیل ہوگئی اور جنرل سکریٹریز اور سکریٹریز کا وجود باقی نہیں رہا ہے۔ ریونت ریڈی نے 7 جولائی کو عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک جنرل سکریٹریز اور سکریٹریز کا تقرر نہیں کیا گیا اور مکمل عاملہ کے بغیر پردیش کانگریس کمیٹی کام کررہی ہے۔ ہائی کمان نے سینئر قائدین کو نمائندگی دینے کیلئے پولٹیکل افیرس کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے 16 ارکان ہیں ان میں واحد مسلم نمائندگی محمد علی شبیر کی ہے جنہیں کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی کے مدعوئین میں ورکنگ پریسیڈنٹس، اے آئی سی سی کمیٹیوں کے صدور، تلنگانہ میں اے آئی سی سی سکریٹریز اور تلنگانہ کے انچارج اے آئی سی سی سکریٹریز کو شامل کیا گیا ہے۔ ریونت ریڈی کی جانب سے پہلے تقررات کے طور پر 5 سینئر پارٹی ترجمانوں اور 8 ترجمانوں کا تقرر کیا گیا۔ اقلیتی قائدین کو امید تھی کہ ریونت ریڈی کی جانب سے کئے گئے تقررات میں انہیں مناسب نمائندگی حاصل ہوگی لیکن سینئر ترجمانوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے جبکہ 8 ترجمانوں میں ایک نمائندگی دی گئی لیکن وہ بھی نہ صرف غیر معروف بلکہ کبھی بھی کانگریس پارٹی میں سرگرم نہیں رہے۔ کاکتیہ یونیورسٹی سے تعلق کی بنیاد پر انہیں ترجمان مقرر کیا گیا۔ ریونت ریڈی چونکہ کانگریس پارٹی سے طویل عرصہ تک وابستہ نہیں رہے لہذا وہ خود بھی سینئر قائدین اور ان کی اہمیت سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں۔ سینئر اور عام ترجمانوں میں ریونت ریڈی نے اپنے حامیوں کو جگہ دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضورآباد ضمنی چناؤ کیلئے اسٹار کمپینرس کی 20 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی لیکن اس میں صرف دو مسلم نام محمد علی شبیر اور اظہر الدین شامل کئے گئے ہیں۔ پارٹی سے کئی دہوں سے وابستہ دیگر اقلیتی قائدین کو موجودہ صورتحال میں اپنے گھر میں بیگانگی کا احساس ہورہا ہے۔ گاندھی بھون پر ریونت ریڈی کی ٹیم کا عملاً کنٹرول ہے اور جن افراد کو ذمہ داری دی گئی وہ سینئر قائدین سے واقف نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے پروگراموں کے سلسلہ میں پاسیس کی اجرائی کے وقت ہمیشہ گاندھی بھون میں بحث و تکرار کے واقعات پیش آتے ہیں۔ جن قائدین کو پاسیس کی اجرائی کی ذمہ داری دی گئی وہ خود پارٹی میں نئے ہیں لہذا کئی سینئر قائدین پاسیس سے محروم رہے۔ اقلیتی قائدین کا احساس ہے کہ ریونت ریڈی بھلے ہی پارٹی میں نئے ہوں لیکن انہیں سینئر قائدین کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہوئے مناسب مقام دینا چاہیئے۔ اتم کمار ریڈی کے دور صدارت میں جو قائدین سرگرم تھے انہوں نے گاندھی بھون سے دوری اختیار کرلی ہے۔ قائدین کو عاملہ کی تشکیل کا انتظار ہے تاکہ جنرل سکریٹریز اور سکریٹریز کے عہدوں میں نمائندگی مل سکے۔ر