ای ڈی کی کارروائیوں سے اپوزیشن جماعتوں میں قربت

,

   

تلنگانہ میں ٹی آر ایس ۔ کانگریس اتحاد کے امکانات کی بھی قیاس آرائیاں ۔ بی جے پی دونوں کی مشترکہ حریف

حیدرآباد7اگسٹ(سیاست نیوز) انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی کاروائیاں اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے لگی ہیں اور اپوزیشن اتحاد کے امکانات میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ لمحۂ آخر تک نائب صدر کے انتخاب پر خاموش رہنے والے صدر تلنگانہ راشٹر سمیتی و چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے بالاخر نائب صدر کیلئے اپوزیشن کی متحدہ امیدوار ہ مارگریٹ الوا کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا اور اب یہ کہا جا رہاہے کہ کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان دوریوں میں کمی کیلئے یہ پہل ثابت ہوسکتی ہے اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس۔ٹی آر ایس اتحاد کو بعید ازقیاس قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بتایاگیا کہ ای ڈی کی کاروائیوں کے دوران ٹی آر ایس کے کانگریسی قائد مارگریٹ الوا کی تائید کے فیصلہ نے کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان دیوار میں دراڑپیدا کردی ہے۔ نائب صدرجمہوریہ کیلئے مارگریٹ الوا کے اعلان کے بعد بھی تلنگانہ راشٹر سمیتی نے مکمل خاموشی اختیار کی تھی اور ان کی تائید پر کوئی فیصلہ نہ کرکے طویل مدت تک چندر شیکھر راؤ دہلی میں مقیم رہے لیکن ان کی واپسی تک تلنگانہ میں ای ڈی کی کاروائیوں کے بعد انہو ںنے اپوزیشن امیدوار کی تائید کا فیصلہ کیا ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس ۔ٹی آر ایس کے اتحاد کی راہیں ہموار ہونے کے آثار پیدا ہورہے ہیں جبکہ صدرپردیش کانگریس اے ریونت ریڈی کے علاوہ راہول گاندھی نے تلنگانہ راشٹر سمیتی کے ساتھ اتحاد کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا تھا اور ٹی آر ایس کی جانب سے بھی کانگریس کے ساتھ نہ رہنے اور حلیف نہ بننے کا بار بار اعلان کیا جاچکا ہے لیکن اب ای ڈی کی کاروائیوں کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دونوں ہی جماعتیں خود کو ایک کشتی کی سوار محسوس کرنے لگی ہیں اور ممکنہ حد تک اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کو مضبوط بنانے کے حق میں ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ ٹی آر ایس نے اپوزیشن امیدورا کی شکست کے باوجود محض اسی لئے ان کی تائید کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپوزیشن کے قریب ہونے کے علاوہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن کو یہ پیغام دے سکیں کہ وہ بی جے پی سے مفاہمت نہیں کئے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ میں کانگریس اور تلنگانہ راشٹر سمیتی کے درمیان اگر انتخابی مفاہمت ہوتو ٹی آر ایس سے زیادہ کانگریس کو نقصان کا خدشہ ہے کیونکہ کانگریس فی الحال تلنگانہ میں بی جے پی سے زیادہ ٹی آر ایس کی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے جبکہ قومی سطح پر دونوں ‘بی جے پی کو نشانہ بنارہی ہیں۔بتایاجاتا ہے کہ ای ڈی کی کاروائیوں کے سبب اپوزیشن کے درمیان بڑھ رہی قربت کے نتیجہ میں تلنگانہ کانگریس کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ اگر ٹی آر ایس اور کانگریس اتحاد کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو کانگریس جو تلنگانہ میں اقتدار کے حصول کی جدوجہد کررہی تھی وہ کمزور پڑجائیگی اور کانگریس کے ٹی آر ایس سے اتحاد کا برسراقتدار جماعت کو زبردست فائدہ ہوگا لیکن بعض سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ اگر یہ اتحاد ہوتا ہے تو تلنگانہ میں بی جے پی کو بھی استحکام حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ بی جے پی اس اتحاد کو ای ڈی کے خوف سے سیاستدانوں کے درمیان اتحاد کے طور پر پیش کرسکتی ہے۔م