تلنگانہ میں بھی نصاب کتب میں زہر آلود مواد کی اشاعت

,

   

تحریک تلنگانہ اور تشکیل ریاست کے عنوان سے من گھڑت واقعات کا تذکرہ ۔ ٹی آر ایس حکومت خاموش تماشائی

حیدرآباد 5 ڈسمبر ( سیاست نیوز ) ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ میں زہرآلود مبالغہ آرائی کی روک تھام کا کوئی انتظام نہیں ہے اور یہ سب کچھ سماج میں نفرت پھیلانے کیلئے متنازعہ مسائل کو اجاگر کرنے والی کتب کی اشاعت کے ذریعہ ہو رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے کہ اس طرح کے پروپگنڈہ کو روکنے مناسب اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک نصابی کتاب کے ذریعہ ہو رہا ہے جس کا عنوان ’’ تحریک تلنگانہ اور ریاست کی تشکیل ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کو پڑھنے سے حیرت انگیز جھٹکے لگتے ہیں ۔ کتاب کو نہ صرف بچکانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے بلکہ اس کے مواد میں انتہائی زہر بھی گھولا گیا ہے ۔ ایک باب اس کتاب میں تحریر کیا گیا ہے جس کا عنوان قاسم رضوی کی قیادت میں رضاکاروں کے مظالم رکھا گیا ہے ۔ اس باب میں یہ بے بنیاد پروپگنڈہ کیا گیا کہ رضاکاروں کے مظالم روز بروز بڑھتے جا رہے تھے ۔ رضاکاروں نے چوٹوپلی گاوں میں بے یار و مدد گار لوگوں پر حملہ کیا اور 16 کو زندہ جلادیا ۔ اس میں تحریر کیا گیا کہ گنڈرام پلی میں رضاکاروں نے کئی لوگوں کو ہلاک کردیا اور انہیں جلادیا ۔ گنڈلاپو میں ان لوگوں نے بتکما سے واپس ہونے والی خواتین کو روک لیا ۔ انہیں برہنہ کرکے بتکما کروایا گیا ۔ انہوں نے خواتین کو پیٹا بھی ۔ مزید تحریر کیا گیا کہ بیرام پلی میں رضاکاروں نے 88 افراد کو گولی ماردی اور اس سے لطف اندوز ہوئے ۔ کتاب کے بموجب کالوجی نارائن راو نے ایک گیت تحریر کرتے ہوئے بیرام پلی واقعہ کا بدلہ لینے کو کہا ہے ۔ اگر یہ کتاب ایسی ہوتی کہ آر ایس ایس ‘ بجرنگ دل ‘ وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے مصنفین نے تحریر کی ہو جن کا کام ہی سماج میں زہرگھولنا اور اپنے مفادات کی تکمیل کرنا ہے تو پھر بات کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا تھا تاہم یہاں جس کتاب کی ذکر ہے وہ ایک نصابی کتاب ہے جو تلنگانہ میں شائع ہوئی اور یہاں ٹی آر ایس کی حکمرانی ہے جو خود کو سکیولر قرار دیتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب پر پرنٹر ‘ پبلشر وغیرہ کا نام بھی نہیں دیا گیا ہے اور ’ راج سیریز ‘ اشوک نگر چورہا حیدرآباد کا پتہ دیا گیا ہے ۔ اس میں جو کچھ بھی واقعات قرار دے کر تحریر کیا گیا ہے ان کا یا تو حقیقت سے تعلق نہیں ہے یا پھر اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے ۔ تاہم بیشتر واقعات ایسے ہیں جن سے قاسم رضوی کا شائد ہی کوئی تعلق رہا ہو کیونکہ قاسم رضوی کو جیل سے 1957 میں رہا کیا گیا تھا ۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ کتاب میں جو تحریر پیش کی گئی ہے اور جن واقعات کا ادعا کیا جا رہا ہے ان کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے ۔ ڈاکٹر کیپٹن لنگا پانڈو رنگا ریڈی جو سابق فوجی ہیں اور اسکار ہیں ان کا کہنا ہے کہ اردو تو چھوڑ ہی دیجئے کسی تلگو یا انگریزی اخبار میں بھی اس طرح کے واقعات کی اشاعت کی ایک مثال تک نہیں پیش کی جاسکتی ۔ کیپٹن رنگا ریڈی کا کہنا ہے کہ وہ 1943 میں پیدا ہوئے ۔ ان کی پیدائش جن مقامات کا تذکرہ کیا گیا ان سے چند ہی کیلومیٹر پر ہوئی تھی ۔ اس کے علاوہ وہ انہیں علاقوں میں بڑے ہوئے ہیں اور کبھی انہوں نے ایسے جرائم سے متعلق ایک لفظ تک نہیں سنا تھا ۔ اس حقیقت کے باوجود تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت کی نگرانی میں تلنگانہ جدوجہد کے نام پر اس طرح کی نصابی کتب کی اشاعت سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست میں ذہنوں کو پراگندہ کرنے ‘ سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کو پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ تعلیم و نصابی کتب تک کا بھی اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے استحصال کرنے لگے ہیں۔