تناؤ کا سامنا کررہے احتجاجی کسانوں کی مدد کے لئے سنگھو سرحد پر اب ذہنی صحت کا کونسلنگ کیمپ

,

   

نئی دہلی۔پچھلے ایک ماہ سے سنگھو سرحد پر زراعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے کسانوں کو دستیاب سہولتوں کی فہرست میں ایک تازہ اضافہ ذہنی صحت کا کونسلنگ کیمپ بھی شامل ہوگیاہے۔ جاری احتجاج کی وجہہ سے تناؤ‘ بے چینی اور الجھن کا سامنا کررہے کسانوں کی اس کیمپ کے ذریعہ مدد کی جائے گی۔

اے این ائی سے بات کرتے ہوئے اس کیمپ میں ماہر نفسیات کے خدمات انجام دینے والے ثانیہ کٹاریہ نے کہاکہ ”یہاں پر لوگ مختلف تناؤ کے ساتھ آرہے ہیں جیسے قرض کا بوجھ احتجاج کے شرائط وغیرہ۔

یہاں پر ایسے کئی جذبات ہیں جس کا کھل کر کسان اظہار نہیں کرپارہے ہیں‘ لہذا ہم نے اس کو حل کرنے کے لئے ان کے احساس کے اظہار میں مددکے لئے ایک پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی ہے“۔

انہوں نے کہاکہ ”احتجاجیوں کو درپیش مسائل میں نیند کی کمی‘ الجھن سے چڑ چڑاہٹ‘ اور برہمی بھی شامل ہے“۔

کٹاریہ جس نے پہلے جنوری میں احتجاج کے مقام کا دورہ کیاتھا‘ کو جانکاری ملی ہے کہ اس مقام پر ذہنی پریشانیوں کو دور کرنے کا فقدان اور جلد سے جلد ذہنی صحت پر توجہہ دینے کی ضرورت ہے‘ ایک این جی او کے تحت اس کام کی شروعات کی گئی ہے۔

ایک معاملہ پر بات کرتے ہوئے ثانیہ نے کہاکہ ”یہاں پر ایک فرد ہے جو ذہنی تناؤ کا شکار ہے اور مذکورہ سنٹر میں اس کا طبی علاج کیاجارہا ہے“۔

کٹاریہ نے تاکید کرتے ہوئے کہاکہ ذہنی صحت رضاکاروں کی ضرورت ہے اور لوگوں پر زوردیاکہ وہ جنتا زیادہ ہوسکے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اس میں شامل ہوجائیں۔

راجندر سنگھ نے کیمپ میں کہاکہ”ذہنی پریشانی کے متعلق بات کرنا کوئی شرم کی بات نہیں ہے اور کسانوں کو چاہئے کہ وہ کیمپ میں موجود ڈاکٹرس سے رجوع ہوکر اپنے معاملا ت پر بات کریں“۔

سنگھ نے کہاکہ”یہاں پر گھر اور احتجاج کے متعلق کئی وجوہات ہیں لہذا ان چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے کونسلنگ فراہم کرنے کافیصلہ کیاہے۔

عام طور سے کوئی بھی تناؤ پر بات نہیں کررہا ہے مگر کھل کر ذہنی تناؤ کے متعلق اظہا ر کرنا شرم کی بات نہیں ہے“۔ سنگھ نے بتایاکہ ایک65سالہ معمر عورت کا احتجاج کے مقام پر تناؤ کی صورتحال کا سامنا کرنے کی جانکاری ملنے پر کونسلنگ کے بعد فوری گھر واپس لوٹا دیاگیاہے۔

نئے ذہنی صحت کیمپ کے ساتھ احتجاج کے مقام پر جم‘ پیروں کی مالش‘ سالون‘ چار بیڈوں پر مشتمل عارضی اسپتال‘ ایک فری ٹاٹو شاپ اور ایک سکھ میوزیم بھی ہے۔

تین زراعی قوانین کے خلاف پچھلے ایک ماہ سے زائد عرصہ سے احتجاج کررہے کسانوں کے ساتھ مرکزی حکومت کی نو مراحل کی بات چیت کے باوجود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکا ہے