روہنگیائیوں پر مظالم، آنگ سان سوچی کی اقوام متحدہ کی عدالت میں حاضری

,

   

واشنگٹن 

میانمار میں فوجی کارروائی کے دوران 7 لاکھ 30 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ میانمار کی کارروائی میں اجتماعی ہلاکتیں، جنسی تشدد، نذر آتش کرنا اور ’’نسل کشی‘‘ جیسے جرائم شامل ہیں۔

میانمار نے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ فوج کا اقدام دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا حصہ تھا۔

امریکی محکمہ خزانہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ مِن آنگ ہلینگ کی سربراہی میں میانمار کی فوج نے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’انہی دنوں نسلی اقلیت کے گروہوں کے ارکان گولیاں چلنے کے واقعات میں ہلاک و زخمی ہوئے۔ عام طور پر یہ واقعات اس وقت ہوئے جب وہ بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ انھیں فوجیوں نے تیز دھار اسلحے سے قتل کیا جبکہ دیگر کو ان کے گھر میں آگ لکاکر ہلاک کیا گیا۔‘‘

امریکہ نے منگل کو میانمار کے چار فوجی رہنماؤں پر تعزیرات عائد کرنے کا اعلان کیا جن میں کمانڈر ان چیف بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کے الزام پر امریکہ کی جانب سے میانمار کے خلاف یہ اب تک کا سخت ترین اقدام ہے۔

ایک طرف فوجی سربراہ مِن آنگ ہلینگ کو بھی پابندیوں کا ہدف بنایا گیا ہے جبکہ دوسری جانب آج ہی کے دن میانمار کی سویلین رہنما آنگ سان سوچی نے دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کی پہلی سماعت میں شرکت کی، جہاں وہ قتل عام کے الزامات پر میانمار کی دفاعی ٹیم کی قیادت کررہی ہیں۔