نیویارک-امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ استنبول میں قائم قونصل خانے میں قتل سے ایک برس قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔
خبررساں ادارے کے مطابق امریکی قانون سازوں نے اس نئے انکشاف کے بعد جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی انٹیلی جنس سمجھتی ہے کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کے لیے تیار تھے، ہوسکتا ہے کہ ان کا مطلب صحافی کو قتل کرنا نہ ہو۔
دی ٹائمز کے مطابق یہ بات امریکا کی قومی سیکیورٹی ایجنسی اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے معمول کی کارروائی کے دوران اتحادیوں سمیت عالمی رہنماؤں کی بات چیت سننے اور جمع کرنے کے تحت ریکارڈ کی گئی تھی۔
اس بات چیت کو حال ہی میں امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد کے ملوث ہونے سے متعلق ٹھوس شواہد کی تلاش کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔
اخبار کے مطابق یہ بات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے ماتحت ترکی الدخیل کے درمیان ستمبر 2017 میں جمال خاشقجی کے قتل سے 13 ماہ قبل ہوئی تھی۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر جمال خاشقجی سعودی عرب واپس نہیں آتے تو انہیں طاقت کے زور پر واپس لایا جائے گا اور اگر ان میں سے کوئی طریقہ کام نہیں کرتا تو پھر ہم ان کے خلاف ہتھیار کا استعمال کرینگے ۔
یہ بات اس وقت کی گئی تھی جب سعودی حکام جمال خاشقجی کی تنقید پر کافی برہم تھے اور اسی ماہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم نگاری کا آغاز کیا تھا۔
جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق خبروں کو ابتدائی طور پر مسترد کرنے کے بعد سعودی عرب نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ قونصل خانے میں موجود ایک ٹیم نے صحافی کو قتل کیا تھا لیکن اس میں ولی عہد شامل نہیں تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں امریکی سینیٹ کی خارجی تعلقات کمیٹی کے اراکین نے ایک بل پیش کیا تھا جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ کو جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد نے دیا تھا یا نہیں اور ان کے خلاف اقدامات سے متعلق تعین کرنیکے لیے ایک سو 20 دن کا وقت دیا تھا جو 8 فروری کو ختم ہوجائے گا