مُلّا کو جوہے ہند میں سجدے کی اِجازت

   

ارشد مدنی کی بھاگوت سے ملاقات ۔ بھتیجے سے اختلاف برقرار
کشمیر میں غیرمعلنہ مارشل لا کا ایک ماہ مکمل
گھر میں خزانہ خالی ۔ باہر مودی کی دریا دِلی

رشید الدین

چاچا اپنے بھتیجے سے اختلافات ختم کرنے تیار نہیں لیکن موہن بھاگوت سے اختلافات ختم کرنے نکل پڑے۔ اسلام میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی حوصلہ شکنی کی گئی اور مسلمانوں کا آپس میں تین دن سے زائد بات چیت بند رکھنا ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ اسلام نے صلۂ رحمی کی تعلیم دی اور قطع رحمی یعنی رشتہ داری کو توڑنے کی ممانعت اور اسے گناہ قرار دیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جدوجہد آزادی میں نمایاں رول ادا کرنے والی جمعیتہ العلماء دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ صرف تنظیمیں نہیں بلکہ ایک خاندان میں پھوٹ پڑ گئی۔ چاچا اور بھتیجہ دو علیحدہ گروپ کے روح رواں ہیں۔ دونوں ہی عالم دین ہیں لیکن قطع رحمی اور رشتہ داروں سے ترک تعلقات کے خلاف شرعی احکامات اور احادیث مبارکہ سے جان بوجھ کر انحراف کیا جارہا ہے۔ خود کو عالم کہنے والے چاچا اور بھتیجے میں برسوں سے اختلافات ہیں۔ کسی بھی گوشہ سے مذاکرات کی پہل نہیں کی گئی حالانکہ دونوں جانب علمائے کرام موجود ہیں۔ خونی رشتہ اور قرابت داری میں دراڑ کے ذریعہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی کوئی پرواہ نہیں لیکن مسلمانوں کے ٹھیکہ دار بن کر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے دربار میں پہنچ گئے مولانا ارشد مدنی۔ اپنی نہ سہی علماء کی عزت و وقار کا کم از کم پاس و لحاظ ہونا چاہئے تھا۔ علمائے حق کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے سلاطین اور شہنشاہوں کی دعوت ٹھکرا دیا۔ دربار میں عہدہ اور منصب کی پیشکش کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا لیکن آج کے بعض علمائے سوء اقتدار کی راہداریوں میں ’’بکاؤ مال‘‘ بن کر قوم و ملت کی رسوائی کا سامان کررہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ملاقات کو اس قدر رازداری میں کیوں رکھا گیا کہ تین دن بعد قومی میڈیا کے ذریعہ عوام کو اس کا علم ہوا۔ اگر ملاقات کرنی ہی تھی تو چوری چھپے آر ایس ایس دفتر جانے کے بجائے جمعیت کے دفتر میں ہی موہن بھاگوت کو مدعو کرتے اور جمعیت کے دیگر ذمہ داروں کی موجودگی میں ملاقات کرتے۔ خفیہ اور رازدارانہ ملاقات سے ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کے مصداق مسلمانوں کے ذہنوں میں سوالات کا اُبھرنا فطری ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے ملاقات کا پول کھلنے کے بعد مسلمانوں کو درپیش مسائل پر بات چیت کا نہ صرف دعویٰ کیا بلکہ موہن بھاگوت کو سنجیدہ اور شریف انسان ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔

ہم بھی آر ایس ایس کے سرسنچالک کی سنجیدگی اور شرافت کے قائل ہیں۔ وہ یقینا سنجیدہ ہیں لیکن ملک کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرنے میں۔ ان کی شرافت ہی کہئے کہ انہوں نے ہجومی دہشت گردوں کے خلاف آج تک کچھ بھی برا بھلا نہیں کہا جو وقفہ وقفہ سے نہتے مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جس تنظیم کی بنیاد ہی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت پر مبنی ہو تو اس سے تبدیلی کی اُمید کرنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی اتنے بھی بھولے نہیں کہ وہ آر ایس ایس کی حقیقت اور نظریہ سے واقف نہ ہو۔ ملاقات خالص مسلمانوں کے مسائل پر تھی تو ارشد مدنی کو قومی میڈیا کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کا انکشاف کرتے ہوئے بہ بانگِ دہل ملاقات کرنا چاہئے تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی اور مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ کی وراثت کے دعویداروں کیلئے یہ زیب نہیں دیتا کہ قوم کو تاریکی میں رکھ کر مسلمانوں کی مذہبی، تہذیبی اور لسانی شناخت کو ختم کرتے ہوئے دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی منصوبوں بندی کرنے والوں سے ملاقات کریں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ موہن بھاگوت کے بجائے ارشد مدنی اپنے بھتیجے سے ملاقات کرکے اختلافات ختم کرتے۔ یہ اقدام قوم کے اتحاد کا سبب بن سکتا تھا جوکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ محمود مدنی بھی چند برس قبل گجرات میں مودی کی مہمان نوازی قبول کرتے ہوئے سُرخیوں میں رہے۔ مولانا ارشد مدنی نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی اجازت تنظیم کی عاملہ سے حاصل کی اور ایجنڈہ سے پیشگی طور پر واقف کرایا یا نہیں، یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ مسلمانوں کے ترجمان بن کر آر ایس ایس سربراہ سے ملاقات کا حق آخر کس نے دیا؟ کیا آپ ہندوستانی مسلمانوں کے ٹھیکہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری کس نے دی؟ ارشد مدنی نے مختلف اُمور پر ملاقات کا دعویٰ تو کیا لیکن مسلمان جاننا یہ چاہتے ہیں کہ آیا موہن بھاگوت نے ہندوتوا ایجنڈہ سے دستبرداری سے اتفاق کرلیا؟ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ مرکزی حکومت کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے اور مودی حکومت، آر ایس ایس ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں۔ مولانا ارشد مدنی جواب دیں کہ آیا بھاگوت نے بابری مسجد اراضی پر دعویداری واپس لینے سے اتفاق کیا؟ طلاق ثلاثہ کے خلاف دستوری ترمیم واپس لے لی جائے گی؟ این آر سی کے نام پر مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کی سازش روک دی جائے گی؟ اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کا کوئی نیا واقعہ نہیں ہوگا۔ کیا کشمیر کی دفعہ 370 کو بحال کردیا جائے گا اور یکساں سیول کوڈ آر ایس ایس کے ایجنڈہ سے حذف کردیا جائے گا؟ 90 منٹ طویل بات چیت میں اس طرح کا کوئی تیقن حاصل نہیں ہوا تو پھر وہ کونسے شخصی معاملات تھے جو اس ملاقات میں طئے کئے گئے۔ عالم باعمل وہی ہے جسے دیکھتے ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آجائے اور جس کی زبان میں اثر ہو۔ جسے دیکھ کر مقابل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹا ہے۔ مولانا ارشد مدنی اپنے مقابل کو متاثر کرنے کے بجائے خود موہن بھاگوت سے متاثر ہوگئے اور تعریف کرنے لگے جبکہ بھاگوت نے آج تک نہ ہی ان کی تعریف کی اور نہ اس ملاقات کے حوالے سے گفتگو کے ایجنڈے کا انکشاف کیا۔
ایسے وقت جبکہ ملک میں شریعت کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے، بابری مسجد کی اراضی داؤ پر ہے اور ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو پست ہمت کرنے کا منصوبہ ہے اور گزشتہ ایک ماہ سے کشمیر میں غیرمعلنہ مارشل لا نافذ ہے۔ ایسے وقت مسلمانوں کا کوئی بھی قدم اجتماعی ہونا چاہئے لیکن ارشد مدنی نے بھاگوت سے ملاقات کرتے ہوئے ملت اور قوم کی بدخدمتی کی ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی انتہا پر ہے اور علماء کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ایک ماہ سے طرح طرح کی پابندیاں اور قائدین کی محروسی کے ذریعہ عوام کے غصہ کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے مریضوں کو دواخانہ نہیں لے جاسکتے اور اموات کی صورت میں تدفین مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ سیاسی قائدین کے رشتہ دار اور دوست احباب عدالت کے احکامات کے ذریعہ ملاقات کرتے ہوئے صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کسی بیٹی کو اپنی ماں سے ملاقات کی اجازت نہیں اور اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے تو پھر اس سے ابتر صورتحال کیا ہوگی۔ ان تمام تلخ حقائق کے باوجود اگر کوئی مسلم دشمن تنظیموں سے اپنے روابط کو بہتر بنانا چاہے تو وہ اپنا نام تبدیل کرلے پھر جو چاہے کرے، مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسری طرف ملک کے سنگین معاشی بحران سے بے پرواہ نریندر مودی نے روس کیلئے ایک ارب ڈالر کے قرض کا اعلان کردیا۔ ملک کا خزانہ خالی ہے لیکن نریندر مودی ملک کے باہر دولت لٹا رہے ہیں ۔ یہ رقم کہاں سے فراہم کی جائے گی جبکہ حکومت کا روزمرہ کا کاروبار ریزرو بینک کی مہربانی سے چل رہا ہے۔ مودی روس سے پہلے اپنے گھر کی فکر کریں جہاں مختلف صنعتی شعبوں میں لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگ چکا ہے۔ علامہ اقبال نے شاید آج کے علماء کیلئے یہ شعر کہا تھا:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اِجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد