آزادی، خود مختاری

   

اور مسٹر آزاد
پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

کشمیر کے بارے میں 1947ء سے ہی دو آئیڈیے یا نظریات پائے جاتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں آئیڈے ایک دوسرے کے متضاد اور مخالف ہیں۔ یہ آئیڈیے مختلف موقعوں پر مختلف شکل میں سامنے آئے اور جس کے نتیجہ میں یہ تاثر پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا کہ کشمیر کے بارے میں دو سے زائد آئیڈے پائے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے سطور بالا تحریر میں تحریر کیا ہے کہ کشمیر سے متعلق صرف دو آئیڈیے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں جو حقیقی آئیڈیا یا نظریہ ہے۔ وہ کشمیر کی تاریخ میں گہرائی تک پیوست ہے اور وہ ایسا آئیڈیا ہے جس نے کشمیر کے ہندوستان میں انضمام سے متعلق معاہدہ طئے کئے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ واضح رہے کہ کشمیر کے انڈین یونین میں انضمام کے معاہدہ پر اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے دستخط کئے تھے، وہ معاہدہ 26 اکتوبر 1947ء کو طئے پایا تھا جبکہ دستور ساز اسمبلی نے انضمام کو تسلیم کیا اور کانگریس پارٹی نے اس کے پیچھے کارفرما آئیڈیا کو اپنایا۔ اگرچہ کانگریس نے گذرتے وقت کے ساتھ اپنے موقف میں تبدیلی لائی لیکن اس آئیڈیا کی ازسرنو تصدیق بھی کی اور اس نے آئیڈیا کے جس اہم جز کی تصدیق و توثیق کی، وہ دراصل ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف (جو فی الوقت ختم کردیا گیا ہے) ہے۔ کانگریس نے ہر وقت اس موقف کی تائید کی۔ ہم نے جس متضاد آئیڈیا کی بات کی، وہ دراصل شیام پرساد مکرجی کا آئیڈیا تھا جو 1947ء میں پنڈت جواہر لال نہرو اور آزاد ہند کی پہلی کابینہ کے رکن تھے۔ آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں بشمول بی جے پی نے شیام پرساد مکرجی کے نظریہ کو اپنایا اور اس آئیڈیے پر اپنے نظریات کی پرتیں جمائی اور جن شرائط پر جموں و کشمیر کا انڈین یونین میں انضمام عمل میں آیا، ان شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی حکومت نے آئین میں جموں و کشمیر کو جو خصوصی موقف عطا کیا گیا، اسے منسوخ کردیا۔
کانگریس کا موقف
5 اگست 2019ء کو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف منسوخ کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا، اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرکے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں، جموں و کشمیر اور لداخ کی تخلیق کی۔ اس کے دوسرے دن ہی کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ حکومت نے یکطرفہ طور پر انتہائی عجیب و غریب اور غیرجمہوری انداز میں دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور ریاست کو بھی تقسیم کیا۔ اس کے لئے حکومت نے دستور کی دفعات کی غلط تشریح کی ہے کیونکہ دفعہ 370 کا ریاست جموں و کشمیر اور ہندوستان کے درمیان انضمام میں اہم کردار رہا اور اس نے انضمام میں ایک اہم عنصر کا رول ادا کیا۔ آرٹیکل 370 کا اس کی ترمیم تک احترام کیا جانا چاہئے تھا اور حکومت کو چاہئے تھا کہ عوام کے تمام طبقات سے مشاورت کرتی اور وہ پوری طرح دستور ہند کے مطابق قدم اٹھائی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں جب مذکورہ قرارداد پیش کی گئی اور منظور کی گئی تب کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ایک سینئر اور برسوں سے اس کے رکن رہے۔ مسٹر غلام نبی آزاد بھی موجود تھے اور قرارداد کی تائید کی تھی۔
ناقابل تنسیخ اقدامات
یہ بھی ضروری ہے کہ مودی حکومت نے جو ’’قانونی‘‘ اقدامات کئے ہیں ، وہ بتائے جائیں (1) اس ضمن میں پارلیمنٹ میں کوئی دستوری (ترمیمی) بل پیش اور منظور نہیں کیا گیا۔
(2) 5 اگست 2019ء کو حکومت نے دفعہ 370(1) کے تحت ایک حکم جاری کیا جس کے تحت 1954ء کو جاری کردہ حکم کو کالعدم کردیا گیا۔ ساتھ ہی نئے حکم میں دفعہ 357 کی شق (4) شامل کی گئی۔
(3) اس دن مودی حکومت نے دفعہ 370 کو تنسیخ کیلئے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی اور وہ قرارداد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کی گئی۔
(4) اس دن حکومت نے راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر (تشکیل جدید) بل 2019ء پیش اور منظور کیا جس کا مقصد ریاست کی تقسیم اور دو مرکزی زیرانتظام علاقوں کی تخلیق تھا۔ دوسرے دن ہی اس بل کو لوک سبھا میں منظور کرلیا اور یہ سب کچھ مبینہ طور پر آرٹیکل 370(3) کے تحت کیا گیا۔
(5) 6 اگست 2019ء کو صدرجمہوریہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا اور اس اعلامیہ یا نوٹیفکیشن کی اجرائی آرٹیکل 370(3) کے تحت عمل میں لائی گئی۔ اس کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا کہ دستور کی دفعہ 370(3) کے تحت آرٹیکل 370 کی تمام شق یا Clauses ، 6 اگست 2019ء سے ناقابل عمل رہیں گے، سوائے ایک نئی شق کے جسے اس نوٹیفکیشن کے ذریعہ متعارف کروایا گیا۔
آپ کو بتادوں کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے تمام ارکان اس بات سے اتفاق کرتے رہے کہ مذکورہ اقدامات غیرقانونی اور غیردستوری ہیں اور حکومت نے عاملانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے یہ نوٹیفکیشن جاری کئے۔ قرارداد اور بل بھی سادہ سی اکثریت سے منظور کئے گئے۔ حکومت نے جو بھی اقدامات کئے، انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، اگر سپریم کورٹ ان اقدامات میں سے کسی ایک یا تمام کو غیردستوری قرار دیتی ہے تو ان اقدامات کو واپس لیا جائے گا۔ اگر مودی حکومت کی جگہ کوئی اور حکومت آتی ہے تو ایسا ممکن ہے) یہ بھی ممکن ہے کہ نئی حکومت مودی حکومت کے چند یا تمام اقدامات کو واپس لے سکتی ہے اور مسٹر آزاد یقینا یہ تمام حقائق جانتے ہیں تو پھر مسٹر آزاد نے یہ کیوں کہا کہ آرٹیکل 370 کی بحالی کا اگر کوئی سیاسی جماعت وعدہ کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جھوٹ کہہ رہی ہے (انہوں نے ایسے کہا جسے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو) بڑی افسوس کی بات ہے کہ غلام نبی آزاد نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن اور اب کانگریس سے علیحدگی کے بعد کشمیر اور اسے حاصل خصوصی موقف کی تنسیخ پر مختلف موقف اختیار کیا ہے اور کہہ رہے ہیںکہ خصوصی موقف بحال نہیں ہوسکتا ۔