آسام میں ”میاں میوزیم“ کو مہر بند کرنے کے بعد ایک روز بعد ایک اور کی گرفتاری

,

   

اے کیوائی ایس اور اے بی بی کی سرگرمیوں کے پیش نظر مغربی اورمرکزی آسام میں اقلیتی اکثریت والے علاقوں میں خاص طور سے سخت نگرانی رکھی جارہی ہے۔


گوہاٹی۔ایک اہلکار نے بتایاکہ انتظامیہ کی جانب سے منگل کے روز ریاست کے گوپال پور ضلع میں مسلمانوں کی جانب سے قائم کردہ ایک خانگی ”میاں میوزیم“ جس کومہر بند کردیاگیاہے اس کو قائم کرنے کے ضمن میں آسام پولیس نے ایک اورفرد کو تحویل میں لیاہے۔مذکور ہ پولیس کا کہنا ہے کہ آسوم میا(آسومیا) پریشد کے ایک لیڈر تانو دادمویا جس کوتحویل میں لیاگیاہے جس کے بعد تحویل میں لئے جانے والوں کی جملہ تعداد اب 3تک پہنچ گئی ہے۔

چہارشنبہ کی شام میں ایک پولیس افیسر نے کہاکہ دادمویا جو ضلع دیبروگڑپ کے نام روپ کا ساکن ہے کومنگل کی رات تحویل میں لے کر پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بات کی نشاندہی کیلئے تحقیقات کی جارہی ہے کہ گرفتاری کئے گئے تینوں میں کسی کے انصار البنگالہ ٹیم(اے بی ٹی) جو القاعدہ برائے برصغیر ہندوستان نامی دہشت گرد گروپ کاحصہ تو نہیں ہے۔

آسام پولیس نے منگل کے روز دو قائدین موہر علی اور عبدالباطن برائے آسوم میا(آسمویا) پریشد کو گوپال پور ضلع انتظامیہ کی جانب سے ”میاں میوزیم“کو مہر بند کرنے کے فوری بعد گرفتار کرلیاتھا۔

چیف منسٹر ہیمنت بسواس کی جانب سے اس کے فنڈنگس پر سوال کھڑا کرنے کے فوری بعد ضلع انتظامیہ نے اس میوزیم کومہر بند کردیاتھا۔

علیحدہ ٹوئٹس میں آسام اسپیشل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس جی پی سنگھ نے کہاکہ اے کیوائی ایس او راے بی ٹی کے ساتھ تعلقات کے متعلق گرفتار کئے گئے افراد سے مزید تفتیش کی جارہی ہے۔

اے بی ٹی دہشت گرد گروپ سے وابستگی اور اس کے زیر اثر کام کرنے کے شبہ میں آسام پولیس نے اسی سال اپریل سے 40کے قریب افراد کو گرفتار کیاہے۔اے کیوائی ایس اور اے بی بی کی سرگرمیوں کے پیش نظر مغربی اورمرکزی آسام میں اقلیتی اکثریت والے علاقوں میں خاص طور سے سخت نگرانی رکھی جارہی ہے۔

اتوار کے روزآسام کے ضلع گوپال پورا کے دبکاربھتا علاقے میں مذکورہ ”میاں میوزیم“ کاافتتاح عمل میں آیاتھا۔یہ اصطلاح ”میاں“ کا استعمال زیادہ تر مقامی طبقات بنگالی یا بنگالی مسلمانوں کے لئے استعمال کرتے ہیں جو1890کے دہائی کے آخر سے آسام میں دریائے برہم پترا کے دونوں کناروں پر اس وقت سے آباد ہیں جب انہیں انگریزوں نے تجارت او رزراعت کے مقاصد کے لئے لایاتھا۔

چیف منسٹر نے کہاکہ پولیس کو چاہئے کہ وہ ”میاں میوزیم“ کے قیام کے متعلق مالیہ کے ذرائع کی جانچ کرے۔سرمانے میڈیاکو بتایاکہ ”جنھوں نے میاں میوزیم قائم کیاہے انہیں چاہئے کہ وہ حکومت کے سوالات کاجواب دے‘ جس میں ناکامی ان کے خلاف قانونی کاروائی کا موجب بنے گی“۔

اس ”میاں میوزیم“ کو آسوم میاں (اسومیا) پریشد نے روایتی زراعت اور گھریلو بنی ہوئی مصنوعات جولکڑی او ربمبو سے بنائی گئی ہیں نمائش کے لئے رکھا تھا۔