آمد مصطفےٰ ﷺ

   

حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

یہ نورانی محفلیں، یہ جشن مسرت، یہ عظیم الشان جلسے و جلوس، یہ انعامی تقریبات، یہ رسائل و جرائد کے خصوصی ایڈیشن اور اطراف و اکناف عالم سے روح پرور نعتوں، نغموں اور وجد آفریں ترانوں کی گونج صرف اور صرف اس محسن کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت باسعادت کے روز جلوہ افروزی کی جاودانی ساعتوں کے حضور نذر عقیدت ہے۔
ماہ ربیع الاول کی ان ہزارہا مبارک ساعتوں میں انسانیت کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت مسلمانان عالم کے لئے جہاں انتہائی مسرت و شادمانی کا دن ہے، وہیں ایک ضابطہ حیات کا ترجمان بھی ہے اور وہ ضابطہ حیات، عدل و مساوات، تنظیم و اتحاد، علم و عمل، اخلاق و محبت جیسے زریں اصولوں سے عبارت ہے۔ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات طیبہ انسانیت کے لئے ہر طرح سے احاطہ کی ہوئی ہے، وہیں خصوصیت کے ساتھ موجودہ نشیب و فراز میں امن، عدل، مساوات، صداقت اور شجاعت کی دعوت دیتی ہے۔ ’’الہی! مجھے مسکینوں میں زندگی بسر کرانا اور مسکینوں ہی میں میرا وصال فرمانا اور قیامت کے روز مساکین کے گروہ میں ہی اٹھانا‘‘ (مشکوۃ شریف) یہ سن کر ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’آپ مولائے کل رحمۃ للعالمین محبوب رب العالمین ہوکر ایسی دعاء فرماتے ہیں؟‘‘۔ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے جواباً فرمایا کہ ’’غریب اور مساکین قیامت کے دن امیروں سے چالیس برس پہلے جنت میں جائیں گے‘‘۔ گویا کہ امیر اپنے گوشوارے جمع کرا رہے ہوں گے اور غریب دامن سمیٹے خراماں خراماں جنت میں پہنچ چکے ہوں گے۔حضور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت کائنات رنگ و بو کا یہ عالم تھا کہ ساری انسانیت بے علمی اور جہالت کی تاریک چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ روم، ایران، مصر، یونان اور ہندوستان یکساں طورپر کفر و شرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔ عرب کی حالت ناقابل بیان تھی۔ دنیا کی کوئی برائی اور بے حیائی ایسی نہ تھی، جو وہاں نہ پائی جاتی ہو۔ جھوٹ، لوٹ مار، دھوکہ، فریب، عیاشی، زناکاری، ظلم و زیادتی، سود خوری، شراب نوشی، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، یتیموں، محتاجوں، بیواؤں اور مسکینوں کو ستانا، مسافروں کو لوٹنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خونریز جنگوں کا اعلان کرنا، کمزوروں کے خون سے طاقتوروں کی تلواروں کو رنگین کرنا، حتی کہ اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بیوی جیسا سلوک کرنا عربوں کا عام مشغلہ تھا۔ مرکز توحید و رسالت، معدن ہدایت کعبہ مشرفہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے گئے تھے۔ زمین، آسمان، مٹی، پتھر، ندی، نالے، جھاڑ، پہاڑ، سورج، چاند، ستارے، سونا و چاندی، روپیہ پیسہ حتی کہ انسان کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔ ایسے نازک موقع پر جب کہ ساری انسانیت ایک خدا کی پرستش چھوڑکر نافرمانیوں میں مبتلاء ہوکر جہنم کے دہانے پر پہنچ چکی تھی، ایسے ماحول میں ہمارے اور آپ کے آقا حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے آئے اور لوگوں کو جہنم کے دہانے سے ہٹا دیا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’تم جہنم کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، ہم نے تمھیں کھینچ نکالا‘‘۔ چنانچہ وہ مقدس ذات گرامی جب وجود میں آئی تو مؤرخین عالم انگشت بدنداں ہیں کہ تیئیس سال کی مختصر سی مدت میں صرف جزیرہ عرب ہی میں نہیں، دنیا کے اکثر حصوں میں اسلام کی شعاعیں پہنچ گئیں اور ساری دنیا میں صدائے حق گونج اٹھی۔
حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی رسالت میں اللہ تبارک و تعالی نے عالمگیریت و آفاقیت رکھی ہے۔ آپ کسی خاص قوم و ملک کے لئے نہیں، بلکہ ساری مخلوق کے لئے ہادی و رہبر ہیں۔ ارشاد الہی ہے ’’بڑی بابرکت ہے وہ ذات، جس نے فیصلہ والی کتاب (قرآن شریف) اپنے بندہ خاص (حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمائی، تاکہ وہ تمام جہاں والوں کو ڈرانے والے ہوں‘‘۔ (سورۃ الفرقان)
اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت مبارکہ میں ہے کہ ’’اور تم اللہ تبارک و تعالی کی نعمت کو یاد کرو، جو (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں) اس نے تم پر نازل فرمائی ہے، جب کہ تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی اور تم اس کی اس نعمت کی برکت سے آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور تم لوگ دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں وہاں سے نکالا‘‘۔حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان نبوت سے قبل چالیس سال مکہ مکرمہ میں گزارے۔ آپ کی یہ بابرکت زندگی، آپ کے اخلاق کی پاکیزگی، معاملات کی صفائی، کردار کی بلندی اور آپ کی حق پسندی و حق گوئی کو دیکھ کر اغیار بھی آپ کو صادق و امین تسلیم کرتے۔
روایات میں آیا ہے، حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس رات حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے، اس رات اچانک حضرت بی بی آمنہ کا سارا گھر روشن ہو گیا اور ستارے جھک کر زمین حرم سے اتنا قریب ہو گئے کہ میں گمان کرنے لگی کہ یہ ٹوٹ کر گرجائیں گے۔ اس سے متعلق بزرگان دین نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کے بعد ساری دنیا نور حق سے منور ہوگئی اور حرم پاک میں ہمیشہ کے لئے بت پرستی مٹ گئی۔ آج دنیا کا وہ کونسا خطہ ہے، جہاں پیغام لاالہ الااللہ نہ پہنچا ہو۔ یہ بھی مشہور روایت ہے کہ جس رات حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام رونق افروز ہوئے، اس رات کسریٰ کے شاہی محل میں زلزلہ آیا اور محل کے چودہ کنگورے گرپڑے اور فارس کے مشہور آتشکدہ جس میں ایک ہزار سال سے آگ جل رہی تھی، اچانک بجھ گیا۔ اس سے بزرگوں نے یہی بیان کیا ہے کہ تخت کسریٰ پر صرف چودہ حکمراں حکومت کریں گے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ کی ولادت کے صرف ۷۰ سال کے بعد یسا انقلاب آیا کہ زمانہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ میں کسریٰ کے تمام علاقے مفتوح ہوکر داخل عالم اسلام ہو گئے اور آتشکدۂ فارس کے بجھنے سے یہی مراد تھی کہ سلطنت ایران سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجوسیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ صرف شب ولادت کے عجائب تھے۔ علاوہ ازیں بہت سارے معجزے رونما ہوئے، جن کو بیان کرنا دشوار ہے۔ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سارے خاندان میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی۔