آندھرا پردیش: جگن اور بابو کا کیا ہوگا ؟

   

امجد خان
آندھرا پردیش جنوبی ہند کی ایک اہم ترین ریاست ہے جہاں پارلیمنٹ کی 25 اور اسمبلی کی 175 نشستیں ہیں چونکہ عام انتخابات مرکز میں برسرِ اقتدار بی جے پی ( مودی ۔ امیت شاہ ) اور خود کانگریس کی زیر قیادت انڈیا اتحاد کیلئے’ کرو یا مرو‘ کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ایسے میں مودی۔ امیت شاہ جوڑی نے جنوبی ہند پر خصوصی توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ 543 پارلیمانی نشستوں میں سے بی جے پی ’ اب کی بار 400 سے پار‘ کا نعرہ لگارہی ہے اور مشن 400 پر جارحانہ انداز میں عمل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس مشن میں اسے اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی مکمل تائید و حمایت اور مدد حاصل رہے، صرف آر ایس ایس ہی نہیں ہندوتوا کی بے شمار تنظیمیں بالخصوص وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں بھی کسی نہ کسی طرح بی جے پی کی مدد میں مصروف ہیں۔
بہر حال آندھرا پردیش کا جہاں تک سوال ہے 2017 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوئی تھی جبکہ آندھرا پردیش کی پڑوسی ریاستوں تلنگانہ اور کرناٹک میں اس کے 30 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ بی جے پی نے آندھرا پردیش میں چندرابابو نائیڈو کی زیر قیادت تلگودیشم اور فلم اداکار سے سیاستداں بننے والے پون کلیان کی جنا سینا پارٹی ( جے ایس پی ) سے اتحاد کیا۔ واضح رہے کہ آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات بھی پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہورہے ہیں۔ ملک بھر میں 13 مئی کو چوتھے مرحلہ کے تحت رائے دہی ہوگی اسی دن آندھرا پردیش میں اسمبلی انتخابات بھی ہوں گے۔ آپ کو بتادیں کہ گذشتہ اسمبلی انتخابات 2019 میں موجودہ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر سی پی نے 175 میں سے 151 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم اور پون کلیان کی جنا سینا کے ساتھ ساتھ کانگریس اور بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار کردیا تھا۔ تلگودیشم صرف 23 اسمبلی حلقوں میں کامیاب ہوسکی تھی۔ عام انتخابات 2019 میں بھی جگن موہن ریڈی کی پارٹی نے 25 میں سے 22 حلقوں میں کامیابی درج کرواتے ہوئے تلگودیشم کا مکمل صفایا کردیا تھا۔ تلگودیشم کو صرف 3 پارلیمانی حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اب کی بار جگن کیلئے اسمبلی اور پارلیمانی دونوں انتخابات آسان نہیں‘ انہیں ایک ساتھ کئی حریفوں کا سامنا ہے۔ ایک تو تلگودیشم، جنا سینا اور بی جے پی اتحاد وائی ایس آر سی پی کے مقابل میں کھڑا ہے تو دوسری طرف خود جگن موہن ریڈی کی سگی بہن وائی ایس شرمیلا بھی ان کے خلاف میدان میں اُتر گئی ہیں۔
کُل ہند کانگریس کمیٹی نے سابق چیف منسٹر متحدہ آندھرا پردیش آنجہانی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی عوامی خدمات اور عوام میں ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کی بہن وائی ایس شرمیلا کو آندھرا پردیش کانگریس کمیٹی کی صدر مقرر کیا ہے۔ پارٹی نے انہیں وائی ایس راج شیکھر ریڈی خاندان کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقہ کڑپہ سے میدان میں اُتارا ہے۔ شرمیلا اپنے بھائی جگن موہن ریڈی اور ان کی حکومت پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع کرچکی ہیں۔ دوسری طرف جگن موہن ریڈی کو ان کی اپنی چچا زاد بہن ڈاکٹر سنیتا کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ ڈاکٹر سنیتا کا الزام ہے کہ جگن موہن ریڈی ان کے والد وائی ایس ویویکا نند ریڈی کے قاتلوں کو بچارہے ہیں‘ نہ صرف بچارہے ہیں بلکہ انہیں سیاسی طاقت بھی عطا کررہے ہیں۔ وائی ایس آر سی پی نے وائی ایس اویناش ریڈی کو دوبارہ امیدوار بنایا ہے۔ اویناش ریڈی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر وائی ایس ویویکا نند ریڈی کے قتل میں ملوث ہیں۔ ڈاکٹر سنیتا اور وائی ایس شرمیلا چاہتی ہیں کہ ہر حال میں اویناش ریڈی کو شکست دیں جو حُسنِ اتفاق سے جگن موہن ریڈی، شرمیلا اور ڈاکٹر سنیتا کے چچا زاد بھائی ہیں۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ اس مرتبہ جگن موہن ریڈی کیلئے کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان نہیں ہے۔
حالیہ عرصہ کے دوران چندرا بابو نائیڈو کا جیل جانا اور پھر بی جے پی کے ساتھ ساتھ پون کلیان کی جنا سینا سے اتحاد کرنا تلگودیشم کیلئے فائدہ بخش ہوسکتا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو نے 27 مارچ کو پرجا گالم مہم شروع کی ہے جس کے تحت وہ ریاست کے تمام اسمبلی حلقوں کے دورے کررہے ہیں۔ ماہِ رمضان المبارک کے پیش نظر وہ افطار کی دعوتوں میں بھی شرکت کررہے ہیں اور مسلمانوں کو یہ بتارہے ہیں کہ اگرچہ انہوں نے بی جے پی سے اتحاد کیا ہے لیکن تلگودیشم ایک سیکولر پارٹی ہے اور کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں کرے گی۔ چندرابابو نائیڈو‘ جگن موہن ریڈی پر اس قدر برہم ہیں کہ وہ ہر انتخابی جلسہ میں عوام سے جگن موہن ریڈی کی حکومت کو اُکھاڑ پھینکنے کی اپیل کررہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے حالیہ عرصہ کے دوران گشت کررہے ایک لیٹر یا خط کے بارے میں وضاحت کردی ہے کہ جو خط سوشل میڈیا پر ان کے دستخط کے ساتھ وائرل ہوا ہے اس پر ان کی جعلی دستخط ہے۔ اس مکتوب میں چندرا بابو نائیڈو کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ تلگودیشم کا اتحاد عارضی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو فی الوقت نوجوان رائے دہندوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ سرکاری ملازمین بالخصوص اساتذہ کے مسائل کو اُٹھارہے ہیں۔ ولیج والینٹرس سے ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں۔ کسانوں خاص کر رائلسیما کے کسانوں سے ان کی ہمدردی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
چندرا بابونائیڈو کا دعویٰ ہے کہ ریاست کے نوجوان اپنے بہتر مستقبل کیلئے تلگودیشم سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ تلگودیشم غریبوں اور سماج کے تمام دبے کچلے اور محروم طبقات کے ساتھ کھڑی ہے۔ صدر تلگودیشم پسماندہ طبقات کی ترقی کیلئے 5 سالہ سب پلان کے تحت 1.5 لاکھ کروڑ روپئے مختص کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو عوام سے بے شمار وعدے کرتے جارہے ہیں۔ انہوں نے رائلسیما کے زیر التواء پراجکٹس کی تکمیل، اقتدار میں آنے پر 5 برسوں میں 20 لاکھ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے، Yemmiganur میں ایک ٹکسٹائیلز پارک قائم کرنے، ولیج والینٹرس کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے ( فی الوقت ان والینٹرس کی تنخواہ 5000 روپئے ہے ) اور اقتدار ملتے ہی میگا ڈی ایس سی کے انعقاد سے متعلق فائل پر دستخط کرنے جیسے وعدے کئے۔ چندرا بابو نائیڈو‘ جگن موہن ریڈی پر تنقید کرتے ہوئے عوام کو بتارہے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں ریت کا ٹریکٹر 700 روپئے میں دستیاب رہا کرتا تھا لیکن جگن موہن ریڈی کی حکومت میں اس کی قیمت 700 سے بڑھ کر3000 روپئے ہوگئی اس کیلئے ریت مافیا، ایم ایل ایز۔ مافیا ذمہ دار ہے۔ بابو کے مطابق سرکاری ملازمتوں سے متعلق تمام نوٹیفکیشن ( اعلامیئے عدالت نے منسوخ کردیئے ) اور اس کی وجہ سے Malpractice بتائی گئی۔ جگن موہن ریڈی کے مخالفین بالخصوص چندرا بابو نائیڈو یہ بھی کہتے ہیں کہ جگن موہن ریڈی نے میگا ڈی ایس سی کا وعدہ کیا لیکن اپنا وعدہ وفا نہیں کیا جبکہ ان (بابو ) کے دور میں دو مرتبہ میگا ڈی ایس سی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چندرا بابو نائیڈو کے مطابق نوجوان، کسان بھی جگن سے خوش نہیں ہیں۔ دوسری طرف جگن موہن ریڈی ’مینمنا سدم‘ (ہم تیار ہیں ) مہم شروع کی ہے جس میں وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آندھرا پردیش ملک کی وہ واحد ریاست ہے جہاں 3000 روپئے پنشن گھر کی دہلیز پر مہینہ کی پہلی تاریخ کو پہنچا دیا جاتا ہے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو 73 سالہ چندرا بابو نائیڈو 73 سالہ مودی کی تائید و حمایت اور پون کلیان پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ آندھرا پردیش کے جملہ 25 پارلیمانی حلقوں میں سے تلگودیشم نے 17 حلقوں میں مقابلہ کررہی ہے جبکہ نشستوں پر مفاہمت کے تحت بی جے پی کو 6 حلقے دیئے گئے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی نسبتی بہن ڈی پورندیشوری آندھرا پردیش بی جے پی کی صدر ہیں۔ بی جے پی نے انہیں پارلیمانی حلقہ راجمندری سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں چیف منسٹر رہے این کرن کمار ریڈی کو راجیم پیٹ، ورا پرساد کو تروپتی، بھوپتی راجو کو نرسا پورم، کتہ پلی گپتا کو پارلیمانی حلقہ اراکو اور سی ایم رمیش کو انکا پلی سے بی جے پی نے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات کے بارے میں انتخابی حکمت ساز پرشانت کشور نے پیش قیاسی کی ہے کہ جگن موہن ریڈی کو اس مرتبہ بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہوں نے عوام کو رجھانے کیلئے جو FREE BEES کا اعلان کیا ہے وہ اب کی بار کام کرنے والی نہیں ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2019 کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں جگن موہن ریڈی کی کامیابی میں پرشانت کشور نے اہم کردار ادا کیا تھا اور حال ہی میں انہوں نے صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو سے بھی ملاقات کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جگن موہن ریڈی کس طرح بی جے پی، تلگودیشم، جنا سینا، کانگریس کے ساتھ ساتھ وائی ایس شرمیلا، ڈاکٹر سنیتا اور اپنے گھر میں ہی موجود دشمنوںکا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں۔ مودی حکومت سے بھی انہیں ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے 6 آئی پی ایس اور 3 ائی اے ایس عہدیداروں کے تبادلے کئے ہیں۔