آنکھوں کو موند لینے سے خطرہ نہ جائے گا

,

   

مودی+ اڈانی … یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے
انڈیا سے این ڈی اے خوفزدہ ۔ مقابلہ کا میدان تیار

رشیدالدین
’’یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے‘‘ فلم شعلے میں جئے اور ویرو پر فلمایا گیا یہ نغمہ موجودہ وقت میں نریندر مودی اور گوتم اڈانی پر صادق آتا ہے۔ گجرات سے شروع ہوئی دوستی دہلی تک پہنچ گئی اور مودی نے اپنی مہربانی سے اڈانی کو ہندوستان کا نمبر ون دولت مند بنادیا ۔ مودی نے اپنے چہیتے پر کرم اور عنایات کی کچھ ایسی بارش کی دوستی ’’تیری جیت میری جیت، تیری ہار میری ہار‘‘ تک پہنچ گئی اور مودی نے اڈانی کے ہر اچھے اور برے وقت بھرپور ساتھ نبھایا۔ دنیا کی لاکھ مخالفت کے باوجود مودی نے اڈانی کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔ محبت اور جنگ میں جس طرح ہر چیز کو جائز قرار دیا جاتا ہے ، ٹھیک اسی طرح نریندر مودی نے اڈانی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی ۔ راہول گاندھی نے جب پارلیمنٹ میں تصویر دکھاکر کر دوستی پر سوال کیا تو انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے برخواست کردیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پارلیمنٹ کی تقریر میں وزیراعظم کی زبان پر اڈانی کا نام تک نہیں آیا کیونکہ دوست کی جگہ دل میں ہوتی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اڈانی کے کالے کرتوتوں کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں لیکن نریندر مودی نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے ساری حکومت کو اڈانی کے بچاؤ میں جھونک دیا۔ بچاؤ مہم میں گودی میڈیا نے مکمل ساتھ دیا۔ اپوزیشن پکار پکار کر تھک گیا لیکن ملک کے اثاثہ جات اڈانی کے حوالے ہوتے رہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں نے اڈانی کمپنیوں کی دھاندلیوں پر آنکھیں بند کرلیں۔ پارلیمنٹ پر مودی کے کنٹرول کا نتیجہ یہ نکلا کہ راہول گاندھی نے لوک سبھا میں اڈانی کے بارے میں جو کچھ کہا، اسے ریکارڈ سے حذف کردیا گیا کیونکہ مودی کو اپنے جگری کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر راہول گاندھی کی رکنیت بحال ہوئی لیکن اڈانی کا تنازعہ ختم نہیں ہوا۔ نریندر مودی بھلے ہی اڈانی سے قربت کے نتیجہ میں پارٹی کے کئی ساتھیوں سے دور ہوگئے لیکن ساتھ جنم ساتھ نبھانے کی شائد دونوں نے قسم کھائی ہے ۔ ایک عام صنعت کار کو نمبر ون تک پہنچانے کے پیچھے آخر کیا راز ہے؟ کیا مودی کا اس میں کچھ فائدہ ہے یا پھر اڈانی ، حکومت کو بچانے کیلئے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی کو جس کا نام لینے پر سزا ملی تھی، پھر وہی شخص ایک اور تنازعہ میں گھر چکا ہے ۔ راہول گاندھی نے پوری شدت کے ساتھ مودی۔اڈانی جوڑی پر حملہ کیا۔ ہندوستان کا کوئی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اڈانی کے بارے میں کہتا تو گودی میڈیا کے ذریعہ نفی کردی جاتی لیکن بیرونی اخبارات نے اڈانی کا تازہ اسکام بے نقاب کیا ہے۔ اپنی کمپنیوں کے شیئرس کی قیمت بڑھانے کیلئے سرمایہ کاری کا منفرد اسکام منظر عام پر آیا۔ اڈانی فیملی نے ایک بلین ڈالر ہندوستان سے بیرونی ممالک منتقل کئے اور پھر وہی رقم اپنے شیئرس میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے شیئرس کی مالیت میں اضافہ کیا۔ شیئرس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اثاثہ جات خریدے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم آخر کس کی تھی جس کی سرمایہ کاری کی گئی۔ ملک میں سی بی آئی اور ای ڈی کو اپوزیشن اور حکومت کے مخالفین کے خلاف متحرک کردیا گیا لیکن مجال ہے کسی کی جو اڈانی کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھے۔ اڈانی پر جب پہلی مرتبہ الزامات عائد کئے گئے تو مالیاتی امور اور سیکوریٹیز کی نگرانی کرنے والے ادارے SEBI نے کلین چٹ دے دی۔ اس کے بعد SEBI کے سربراہ یو کے سنہا کو اڈانی کے ٹی وی چیانل NDTV میں ڈائرکٹر مقرر کردیا گیا ۔ یہ کلین چٹ دینے کا انعام نہیں تو کیا ہے ۔ کل تک جو دستوری ادارہ کے سربراہ کے طور پر تحقیقات کی طاقت رکھتا تھا ، اچانک اس شخص کا ملازم بن گیا جس پر الزامات ہیں۔ یہ انعام اسی طرح کا ہے جس طرح بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ کو راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی۔ ایک جج کو گورنر اور ایک کو قومی اپیلیٹ ٹریبونل کا صدرنشین مقرر کیا گیا۔ اڈانی معاملہ میں تحقیقاتی ایجنسیاں گاندھی جی کے تین بندروں کی طرح ’’برا مت کہو، برا مت سنو اور برا مت دیکھو‘‘ کے اصول پر کارفرما ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے آج تک بھی اڈانی معاملات پر لب کشائی اور من کی بات نہیں کی۔ خاموشی کے فن کے ساتھ نریندر مودی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد انڈیا کو توڑنے میں ناکامی اور ممبئی میں اپوزیشن کے کامیاب اجلاس سے خوفزدہ مودی نے اچانک پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا۔ اپوزیشن اتحاد اور اڈانی اسکام سے عوام کی توجہ ہٹانا بنیادی مقصد ہے ۔ اجلاس کے ایجنڈہ کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی لیکن سیاسی حلقوں میں پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان الیکشن پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کئے جائیں گے ۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ ہے۔ یکساں سیول کوڈ ، ون نیشن ون الیکشن نعرہ کے تحت قانون سازی اور خواتین تحفظات بل کی پیشکشی کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ اور تمام اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات کی تحریک پیش کی ہے جس پر تمام سیاسی پارٹیوں کا متفق ہونا آسان نہیں۔ حکومت نے سابق صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی ہے جو ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ پر اپنی رپورت پیش کرے گی۔ بی جے پی کی حلیف جماعتوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کے افتتاح سے قبل لوک سبھا چناؤ نہیں ہوں گے کیونکہ رام مندر کے نام پر 2024 ء میں ووٹ حاصل کرنا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے بارے میں لا کمیشن نے ابھی تک حکومت کو سفارشات پیش نہیں کی ہیں۔ لہذا اس بارے میں قانون سازی کے امکانات کم ہیں۔ مبصرین کے مطابق کشمیر میں انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی زیر انتظام علاقے کی جگہ ریاست کا موقف بحال کیا جاسکتا ہے۔ الغرض پارلیمنٹ کے دونوں ایوان نریندر مودی کے الیکشن پلیٹ فارم کی طرح رہیں گے۔
الیکشن آتے ہی نریندر مودی کو عام آدمی کی یاد ستانے لگی ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل پکوان گیس سلینڈر کی قیمت میں 200 روپئے کی کمی کی گئی۔ غریبوں کیلئے 75 لاکھ نئے کنکشن جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ دو سال تک کورونا وباء اور لاک ڈاؤن کے پیش نظر غریب اور متوسط طبقات بری طرح متاثر ہوئے لیکن اس وقت مودی حکومت کو پکوان گیس سلینڈر کی قیمت میں کمی کا خیال نہیں آیا۔ اب جبکہ حکومت کے دعوے کے مطابق عوام کی معیشت میں بہتری آئی ہے لیکن بی جے پی کو ووٹ کی ضرورت ہے ، لہذا گیس سلینڈر کی قیمت میں کمی کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی کمی کی تیاری کرلی گئی ہے اور انتخابات سے عین قبل یہ اعلان کیا جائے گا ۔ مودی حکومت کے یہ تمام اقدامات دراصل اپوزیشن اتحاد انڈیا سے خوف کا نتیجہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی نے گزشتہ 9 برسوں میں بیشتر اسکیمات کے نام میں انڈیا کو شامل کیا لیکن آج لفظ انڈیا سے نفرت ہوچکی ہے کیونکہ اپوزیشن نے اس لفظ کو اختیار کرلیا ہے۔ ممبئی میں اپوزیشن اتحاد کا دو روزہ اجلاس منعقد ہوا اور مشترکہ ایجنڈہ پر عمل آوری کا عہد کیا گیا۔ گزشتہ 9 برسوں سے منتشر اپوزیشن بی جے پی اور مودی حکومت کو شکست دینے میں ناکام رہی تھی لیکن اب انڈیا کے نام سے مضبوط اتحاد تیار ہوا ہے۔ یہ اتحاد لوک سبھا الیکشن تک برقرار رہے گا کیونکہ اپوزیشن نے لوک سبھا چناؤ میں متحدہ مقابلہ کا فیصلہ کرتے ہوئے نریندر مودی کی نیند اڑادی ہے۔ اپوزیشن قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوک سبھا الیکشن تک انہیں تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ مزید چند ماہ تک مظالم کو سہنے کا صلہ لوک سبھا الیکشن میں مل سکتا ہے ۔ ریاستوں کی سطح پر کانگریس سے اختلاف رائے کے باوجود علاقائی جماعتوں نے قومی مفاد کے تحت متحد رہنے کو ترجیح دی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو تعلیمی اداروں تک پہنچادیا گیا ہے۔ ہندوستان کے عوام کی اکثریت نفرت اور تعصب کے خلاف ہے لیکن مٹھی بھر شرپسندوں نے ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے ۔ صورتحال کا جائزہ لینے والے ذی شعور افراد مجوزہ پانچ ریاستوں اور آئندہ سال لوک سبھا چناؤ میں اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ مسلمانوں سے نفرت کی سیاست کا بنیادی مقصد ہندوؤں کے ووٹ متحد کرنا ہے۔ مظفر نگر میں اسکول ٹیچر نے مسلم دشمنی کا بدترین مظاہرہ کیا۔ نماز کی ادائیگی کیلئے بس کو چند منٹ تک روکنے والے کنڈکٹر موہت یادو کو آخرکار خودکشی کرنی پڑی کیونکہ مسلمانوں سے ہمدردی پر اسے ملازمت سے ہٹادیا گیا تھا۔ گجرات میں اسٹیٹ امتحانات میں ٹاپر مسلم طالبہ کو ایوارڈ کیلئے اسٹیج پر طلب نہیں کیا گیا۔ اندور میں 12 سالہ مسلم لڑکے کو قابل اعتراض نعرہ نہ لگانے پر مارپیٹ کی گئی ۔ یہ تمام نفرتی سرگرمیاں سوشیل میڈیا میں وائرل کرتے ہوئے مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی جارہی ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کچھ یوں مشورہ دیا ہے ؎
آنکھوں کو موند لینے سے خطرہ نہ جائے گا
وہ دیکھنا پڑے گا جو دیکھا نہ جائے گا