آیا گنگا جمنی تہذیب ایک فریب ہے ؟

   

رام پنیانی
وشوا ہندو پریشد کے جنرل سیکریٹری ملند پراندے نے حال ہی میں (ستمبر 2021ء ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘) کہا کہ گنگا جمنی تہذیب کا آئیڈیا غیرمتعلق ہے اور موجودہ حالات سے میں وہ بے جوڑ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف ایک تہذیب موجود ہے اور اس تہذیب میں دیگر تمام تہذیبیں ضم ہوجاتی ہیں اور وہ تہذیب ہندوتوا تہذیب ہے اور اس ضمن میں وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہندو کاز ہی اولین ہے۔ وی ایچ پی کے لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے اشرافیہ نے گنگا جمنی تہذیب سے متعلق یادوں کو انتہائی رومانی انداز میں پیش کرتے ہوئے اس کا بھرپور پروپگنڈہ کیا حالانکہ تاریخ میں اس کی بنیاد ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ میں یہ بھی ہے کہ مختلف طبقات اور برادریوں کے درمیان شدید تناؤ رہا اور بعض نے لکھا ہے کہ مسلم فاتحین نے بڑی خونریزی کی اور خاص طور پر ہندوؤں کا قتل عام کیا اور انہیں دبایا۔ بعض لکھنے والوں نے یہ بھی لکھا کہ مسلم بادشاہوں نے ان کی منادر منہدم کیں۔ ہندوؤں پر مظالم ڈھائے اور تبدیلی مذہب اور جزیہ اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح کی باتیں وی ایچ پی اس کی قبیل کی جماعتیں و تنظیمیں کرتی ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ گنگا جمنی تہذیب کا تصور 19 ویں صدی میں ابھر کر سامنے آیا جو دراصل ملک کی ماضی کی تاریخ اور بدلتے ہوئے رجحان کا ایک حصہ تھا جبکہ ہندوستان ایک متنوع ملک ہے اور ایسے ممالک جہاں پر کئی ایک مذاہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں، ان میں ہندوستان ایک سرفہرست ملک ہے۔ سرزمین ہند پر تقریباً 4,600 برادریاں مقیم ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں 4,600 کے قریب برادریاں مقیم ہیں، وہیں تقریباً 18 بڑی زبانیں 700 بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اس سرزمین پر 8 بڑے مذاہب ماننے والے رہتے ہیں۔ بے شمار رسم و رواج پائے جاتے ہیں۔ انواع و اقسام کے پکوان ہوتے ہیں، یہ کیا ہے، یہ دراصل مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ وہ تہذیب ہے جس کی پچھلے کئی صدیوں سے عوام نے تخلیق کی ہے۔ دراوڑی ، آریائی، منگولیائی اور سامی ہماری نسلی تنوع کی بنیاد ہیں۔ اسی طرح قدیم انڈو۔ آرین اور قرون وسطی کی انڈو ۔ مسلم رجحان کا تہذیب و تمدن پر بہت بڑا اثر پڑتا رہا ہے اور پڑ رہا ہے۔ جہاں تک انڈو ۔ آرین کا سوال ہے، اس کی قربت سے ویدک تہذیب کو کافی مدد ملی اور اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا کہ انڈین ۔ آرین اتحاد، ویدک کلچر کے فروغ کا باعث بنا، اسی طرح انڈو۔ مسلم روابط نے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انڈو ۔ مسلم روابط کو گنگا جمنی تہذیب سے جانا جاتا ہے لیکن افسوس نسل پرستی پر مبنی قوم پرستی اور اس کی تنگ نظری نے ماضی کو چنندہ انداز میں پیش کرنا شروع کیا یعنی تاریخ کے چنندہ حصوں کو ہی ان نسلی قوم پرستوں نے پیش کرنا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی کے بادشاہوں ، راجاؤں اور حکمرانوں کو مذہب کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سب سے زیادہ نشانہ مسلم بادشاہوں کو بنایا گیا اور جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس معاملے میں انگریزوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ان لوگوں نے ہی ’’پھوٹ ڈالو، حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی اور جس پر آج بھی عمل ہورہا ہے۔ مسلم اور ہندو دونوں اپنے اپنے مذاہب کے ماننے والے بادشاہوں کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاچکے ہیں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بادشاہوں کو گری ہوئی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں نے مسلم بادشاہوں پر مظالم ، مندروں کو منہدم کرنے اور زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے الزامات عائد کئے اور آج بھی یہ طاقتیں ان الزامات کو دہراتے ہوئے یہ کہتی ہیں کہ مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں کے ساتھ جو کچھ بھی کیا، وہ ہولوکاسٹ کے برابر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بادشاہوں کے درمیان چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے کیوں نہ ہوں، جو جنگیں لڑی گئیں، ان میں ہلاکتیں ہوئی ہیں، چاہے وہ کالنگا کی جنگ ہو جس میں اشوک ایک راجہ تھا یا پھر اکبر اور رانا پرتاپ کے درمیان کی جنگ ہو اور ہر قسم کی جنگ میں قتل و غارت گری ہوئی ہے، انسان مارے گئے ہیں اور بادشاہوں نے اپنی حکمرانی کو وسعت دینے کی خاطر اور اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے جو جنگیں لڑیں اور ان میں جو اموات ہوئیں، اس کی قیمت عام لوگوں کو ادا کرنی پڑی۔ حاجی علیؒ کی درگاہ پر جو لوح نصب کی گئی ہے وہ اس طرح ہے ’’سنت ماں حجیانی‘‘، ماں حجیانی کی درگاہ۔ اسی طرح درگاہ حضرت حاجی ملنگ ؒ کے مجاور کوئی مسلمان نہیں بلکہ پنڈت وشنو کیٹکر ہیں۔ اسی طرح ہندو بھکتی کے سنت جیسے کبیر کو چاہنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اب اسی طرح فارسی اور ہندی (بالخصوص اودھی) کا ملاپ اُردو کے ظہور کا باعث بنا۔ اُردو ایک منفرد ہندوستانی زبان ہے، جس کے فروغ میں چندرا بھان برہمن سے لے کر منشی پریم چند نے اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف کئی مغل حکمرانوں نے اپنے دربار میں سنسکرت اسکالرس کو رکھا تھا۔ دارا شکوہ کا طرز حیات منفرد تھا۔ اس نے جب ’’مجموعہ البحرین‘‘ جیسی کتاب لکھی اس میں گنگا جمنی تہذیب کا تذکرہ کیا اور ہندوستان کو دو عظیم سمندروں سے تعبیر کیا اور وہ دو سمندر ہندو ازم اور اسلام ہیں۔ دوسری طرف فارسی یا ایرانی پکوان جیسے بریانی اور جلیبی جیسی مٹھائی ہمارے کھانوں کا حصہ بن گئے۔ ہمارے ملک میں صوفی سنتوں کی درگاہوں میں ہولی کا تہوار اور بادشاہوں کے درباروں میں دیوالی جشن چراغاں کے طور پر منائی جاتی رہی۔ ہندوؤں نے محرم میں شرکت کی جبکہ مسلمان ہندو تہواروں میں جوش و خروش سے شرکت کرتے رہے۔ عادل شاہی سلطنت کے بادشاہ ابراہیم نے ایک کتاب ’’کتاب نورنگ‘‘ لکھی جس میں 59 نظمیں تھیں۔ پہلی نظم ہندو دیوی سرسوتی کے بارے میں لکھی گئی۔ غرض یہی گنگا جمنی تہذیب ہے جسے فرقہ پرست ناپسند کرتے ہیں۔