ابن صفی – عہد رفتہ سے عہد حاضر تک۔۔ ایس ایم حسینی

,

   

اردو زبان میں سری ادب کا نام سنتے ہی ذہن کے پردہ پر ابھرنے والا جگمگاتا نام ابن صفی کا ہے، ابن صفی وہ پہلے جاسوسی ناول نگار ہیں جنہوں نے جاسوسی ناول کو گوناگوں مسائل سے سے جوڑ کر ایک نئی جہت کا آغاز کیا، انہوں نے اپنے ناولوں کو اس مقام تک پہونچایا کہ وہ محض تفریحی عوامی اور بازاری ادب نہ ہوکر ادیبوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

تفریح و تفنن کے پیرائے میں زمانے کی دکھتی رگ کو چھیڑا اور سماجی ونفسیاتی پہلوؤں کی تصویر کشی کی، یہ الگ بات ہے کہ ادب عالیہ والوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا،

ادیبوں کی نظر میں ابن صفی ہمیشہ اس لئے کھٹکتے رہے کیونکہ ادیب ان کی تحریروں کی سادگی اور سادہ لوحی کو برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔

بہت سے لوگوں نے خود تو اس سے نفع اٹھایا اور دوسروں کو سخت سست سناکر پڑھنے سے منع کردیا، ایسے ہی لوگوں کے متعلق ابن صفی اپنی ایک کتاب کے انتساب میں کہتے ہیں کہ “ان لوگوں کے نام جو میری کتابوں کو چھپ چھپ کر پڑھتے ہیں اور دوسروں کے لئے نقصاندہ قرار دیتے ہیں۔”

حقیقت میں جاسوسی کا پیشہ قدیم ترین ہے، اپنے ملک و قوم کو مستحکم اور اس کے تحفظ کے لئے حکمراں ہمیشہ سے جاسوسوں سے کام لیتے آئے ہیں، الف لیلہ کے تعلق سے مشہور ہونے والی شہر زاد کی کہانی The Three Apple میں جاسوسی عناصر ملتے ہیں اسی طرح اردو ادب میں جاسوسی عناصر “داستان امیر حمزہ” میں بھی نظر آتے ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں جاسوسی ناول لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بنے اور قیسی رام پوری وغیرہ نے کئی جاسوسی ناول تحریر کئے، اردو میں جاسوسی ناول کا باضابطہ آغاز رسوا کے ناولوں سے ہوا جس میں “خونی جورو” “بہرام کی رہائی” اور “خونی شہزادہ” اہم ناول ہیں۔

قصہ مختصر جاسوسی ناولوں کا آغاز صحیح معنوں میں ابن صفی کے ہاتھوں ہوا جو اس کے موجد اور امام ہیں، 26 سال کی عمر میں جاسوسی ناول نگار کی حیثیت سے مشہور ہونے والے اس ناول نگار نے دو سو پینتالیس (245) ناول لکھے جس میں ایک سو پچیس جاسوسی دنیا سریز اور ایک سو بیس عمران سریز کے، ان میں سے کم از کم ستر ناولوں کو سائنس فکشن ناول بھی کہا جاسکتا ہے۔

ابن صفی کے حوالے سے بات کی جائے تو آپ ایک ایسے جاسوسی ناول نگار ہیں جن کی کہانیوں میں پلاٹ فنی سطح پر مستحکم اور تہہ دار ہے، تجسس پیدا کرنے کا ان کا اپنا ایک الگ طریقہ ہے، ان کی تحریروں میں تجسس کی دنیا اس لئے برقرار رہتی ہے کہ قاری جس کو مجرم سجھ رہا ہوتا ہے وہ مجرم نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا شخص مجرم ہوتا ہے جسے ہم مقتول کا خیرخواہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، جبکہ چند ناول اس کے برعکس بھی ہیں، لہذا انہی دونوں اقسام کی کشمکش کے سبب آخر تک پتہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ مجرم کون ہے؟ اور یہی چیز قاری کو تجسس میں ڈالے رکھتی ہے۔

جاسوسی ادب میں ابن صفی ایک ایسا معتبر ترین نام ہے جن کی مقبولیت کو اردو کا کوئی اور ناول نگار نہیں پہونچ سکا،

اظہار اثر، اکرم الٰہ بادی، عارف مارہروی، سراج انور، اور ایچ اقبال بھی اس میدان میں اترے لیکن جو پزیرائی ابن صفی کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔

این صفی، ابّن صفی، نغمہ صفی، نجمہ صفی اور اسی قسم کے جعلی اسماء نے بھی قارئین کو دھوکہ دے کر اپنی دکان چمکانے کی کوشش کی لیکن ابن صفی کے سامنے کسی کی پیش نہ چلی۔

ابن صفی کی آفاقی معنویت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ناول کے قارئین کا اتنا وسیع حلقہ نہ اس سے قبل پیدا ہوا اور نہ ہی اس کے بعد، ایسے لوگ بھی ہیں جنہون نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ان کے ناولوں کے مطالعے سے کیا اور بہترین ادیب بن گئے، ایک بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جنھوں نے صرف ان کے ناول پڑھنے کے لئے اردو زبان سیکھی۔

مشتے از خرورے ابن صفی نے اپنی نایاب تحریروں سے اصلاح کی شمعیں روشن کیں، جنسی لیٹریچر کے سیلاب پر بند باندھا جو قاری کے دل و دماغ پر منفی اثرات مرتب کررہا تھا،

ابن صفی سماج اور معاشرے میں اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کے قائل اور اخلاقی اقدار کے پاسباں تھے، جس نے انھیں فریدی، حمید، ، انور، شارق، ایرج، عقرب اور عمران اور اس جیسے لاتعداد کردار تخلیق کرنے پر ابھارا، وہ مغربی تہذیب اور وہاں کے آزادانہ ماحول کو ناپسند کرتے تھے، ابن صفی قدیم روایات کو سینے سے لگائے رہے، اور لوگوں سے دقیانوس ہونے کا طعنہ سنتے رہے۔

کرنل فریدی اور عمران نہ تو شراب کو ہاتھ لگانا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی صنف مخالف کو حرص و ہوس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، حمید گرچہ عورتوں میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا، برخلاف انگریزی جاسوس ادب کے، جیسے کہ جیمز بانڈ شراب پیتا ہے اور عورتوں کے سلسلہ میں اس کا کردار آلودہ ہے۔

چونکہ ابن صفی مشرقی اقدار و روایات کے پاسباں تھے اس لئے ان کے ناولوں کے ہیرو اخلاقی اقدار کے پابند ہوتے ہیں، ان کی تحریرں محض اس لئے اہم نہیں کہ وہ تھکے تھکے بوجھل لمحوں کے لئے اکسیر ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ ہرعہد کے انتشار و ابتری اور گرد وپیش کی واقعاتی حالات سے جڑی ہیں۔

ابن صفی کو اس بات کا بہت افسوس ہے کہ انسان آج اپنی ایجادات سے ترقی کے منازل طے تو کررہا ہے، لیکن وہ اپنے اقدار و روایات سے تہہ بہ تہہ پستیوں میں ڈوبتا چلا جارہا ہے، وہ چاند پر تو پہونچ گیا لیکن اپنے معاشرے اور سماج کی پرامن زندگی کے لئے کچھ نہیں کرپایا، حرص وہوس، خود غرضی، اور لالچ اس کے اندر سرایت کرگئی ہے۔

ابن صفی کا اصلی فن کردار نگاری میں ہے، انہوں نے فریدی، حمید اور عمران جیسے لازوال کرداروں کے ساتھ منفی اور ذیلی کرداروں کو جاندار بناکر اس میں ایسی جاذبیت پیدا کی جن کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

کرنل فریدی ایک سنجیدہ آدمی ہے جس کا مشن قانون کا تحفظ اور اس پر عمل کرنا اور کرانا ہے، کیپٹن حمید ایک ایسا فرد ہے جس کی مکمل شخصیت مزاح میں گندھی ہوئی ہے، یہ اپنی مزاحیہ باتوں سے قاری کو ہنساتا ہے اور کرنل فریدی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔

ابن صفی نے عمران کے نام سے ایک ایسا کردار تخلیق کیا جس کی ظاہری اور باطنی شخصیت تہہ دار اور پراسرار ہے، ایک ایسا جاسوس جو بحیثیت “ایکس ٹو” کام کرتا ہے، جس سے دوسرے ممالک کے خفیہ ادارے اور زیر زمین مجرم تنظیمیں بھی دہشت زدہ رہتی ہیں۔

ایکس ٹو کے رول میں عمران ایک سنجیدہ ترین شخص ہے، جس کی صرف آواز سن کر ہی اس کے ماتحت مؤدب ہوجاتے ہیں اور بالکل ویسا ہی احترام کرتے ہیں جیسا کہ ایک ماتحت اپنے چیف آفیسر کا کرتا ہے، عمران بحیثیت عمران حماقت کے فلسفہ کا قائل ہے، وہ اپنی اسی حماقت اور مذاق مذاق میں اپنا مقصد پورا کرلیتا ہے، وہ خوش مزاج بھی ہے اور خوفناک حد تک بھیانک بھی، دراصل اس کردار میں فریدی اور حمید دونوں سماگئے ہیں۔

منفی کرداروں میں تھریسا، سنگ ہی، الفانسے، جیرالڈ شاستری، جابر، علامہ دہشتناک، ہمبگ دی گریٹ بڑی اہمیت کے حامل ہیں، تھریسا اور سنگ ہی دونوں کردار کئی اہم خصوصیات کے حامل ہیں، تھریسا زیرولینڈ کی سربراہ ہے، اور سنگ ہی بدنام زمانہ چینی مفرور جس نے حکومت چین کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی اور ناکامی کی صورت میں جلاوطن کردیا گیا تھا۔

 ابن صفی نے اپنے تخیل سے “زیرو لینڈ” نامی ایسے ملک کا تصور پیش کیا جو یوں تو بہت ترقی یافتہ ہے لیکن دنیا کے کسی بھی نقشہ پر اس کا وجود نہیں، اس کے باشندے ترقی اور ایجادات کے ذریعے پوری دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں، یہاں ایسے پرندے پائے جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں کیمرہ فٹ ہوتا ہے، ایسی اڑن طشتریاں استعمال کرتے ہیں جسے دوسرے ممالک کے لوگ راڈار اسکرینوں پر دیکھ نہیں پاتے اور دھوکے میں ایلین سمجھ بیٹھتے ہیں، زیرو لینڈ والے ایسا آلہ بھی رکھتے ہیں جو گولیوں کا رخ تک بدل کر رکھ دیتا ہے۔

ابن صفی نے اپنے زمانے کے حساب سے الیکٹروگس جیسی نئی چیز متعارف کرائی جو ہرچیز کو جلا کر بھسم کردیتی ہے، لیزر گن یا الیکٹروگس جیسی چیز ابن صفی کے ناولوں میں اس وقت دکھائی دیتی ہے جب ان کا مکمل وجود نہیں ہوا تھا یعنی یہ سب چیزیں اپنے تجرباتی مراحل میں تھیں۔

ابن صفی کے کرداروں میں اپنی بیوی سے نالاں لحیم شحیم قاسم نظر آتا ہے، زندگی سے اکتایا ہوا لیکن ذہانت سے بھرپور انور ہے، علاوہ ازیں فیاض، جوزف، صفدر، چوہان، جعفری، جولیا، جیمسن، ظفرالملک، تنویر، سلیمان، رشیدہ وغیرہ جیسے کرداروں نے بھی ان کے ناولوں کو سربلندی عطاکی۔

ابن صفی سرّی ادب میں قدم رکھنے سے قبل طغرل فرغان، سنکی سولجر، عقرب بہارستانی، اور پرکاش سکسینہ کے نام سے کافی سراہے گئے تھے، اور آپ نے شاعری میں اسرار ناروی کے نام سے بھی نام پیدا کیا تھا، لیکن سرّی ادب ان تمام چیزوں پر غالب آئی، اسی بنا پر آپ کے استاد عبدالحق ہمیشہ شاکی رہتے، البتہ قاری ابن صفی کی تمام تخلیقات میں طغرل فرغان، سنکی سولجر، اور اسرار ناروی کا عکس صاف محسوس کرسکتے ہیں۔

اسرار احمد ابن صفی کی پیدائش اپریل 1928 کو اتر پردیش کے ایک شہر الہ آباد کے قصبہ نارہ میں ہوئی، اور وہ 26 جولائی 1980 کو کراچی پاکستان میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

ابن صفی اپنے قارئین کو ادب کے ذریعہ تخریب سے تعمیر کی طرف ہجرت کی تلقین کرتے رہے تاکہ جرائم سے پاک سماج کی تشکیل ہو، ان کی نگاہ ایک ادیب کی حیثیت سے سماج کی ہر چھوٹی بڑی اخلاقی برائیوں پر تھی، انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نشہ آور اشیاء، جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں ہونے والے جرائم، نفسیاتی جرائم، اقتصادی جرائم، وطن فروشی، اور غداری کے ساتھ بے شمار موضوعات کو اپنے ناولوں میں سمیٹا۔

اپنے ایک پیشرس میں خود کہتے ہیں۔ “یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام کرنا سیکھے، میں ہرحال میں شر پر خیر کا پرچم لہرانا چاہتا ہوں، میں باطل کو حق کے سامنے سربلند نہیں دکھانا چاہتا۔”

ابن صفی کے یہاں ماضی پرستی ممنوع ہے وہ حال سے مستقبل کو مربوط کرنے کی کوشش کرتے رہے، ان کی تحریروں میں مستقبل بینی واضح طور پر نظر آتی ہے، غرض یہ کہ جاسوسی ادب میں ابن صفی کی حیثیت ایک Legend کی ہے، انسان ایک نازک اور کمزور مخلوق ہے جسے ذرا سی بے توجہی نفسیاتی الجھنوں کا شکار کردیتی ہے، انھوں نے انہی الجھنوں کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنے ناولوں میں مختلف انداز میں قاری کے سامنے رکھا، الحاصل نفسیات پر گہری اور باریک نظر ہی ان کے ناولوں کو فکری بلندی عطا کرتی ہے۔

ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ