ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا جشن الماس و سہ روزہ قومی سمینار

   

سمینار نئی نسل کو اُردو میں قدیم ،علمی، مذہبی و ادبی اثاثہ و سرمایہ سے واقف کروانے کی کاوش

ڈاکٹر محمد ناظم علی
کتب انسانی زندگی کا سچا ساتھی ہے، یہ انسان کی شخصیت سازی، کردار سازی، اصلاح سازی کے ساتھ دین و دنیا میں سرخروئی کا موجب بنتے ہیں، کتابوں سے ہی ملک و قوم کی ہمہ جہت ترقی ہوتی ہے، کتابیں زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہیں، انسانیت کی ترقی و فروغ کا باعث ہوتی ہیں۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان اونچا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ عصری سماج میںمطالعہ کی عادت ماند پڑ رہی ہے۔ عوام کا رشتہ کتابوں سے کمزور و کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک زمانے میں ماحول پر کتب بینی کا ایسا جنون تھا کہ لوگ اپنے ساتھ مطالعہ کیلئے پاکٹ سائز ناول یا کتاب جیب میں رکھتے تھے۔ فرصت کے وقت میں اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ عصری سماج میں کتابی کلچر اور مطالعہ کو فروغ دینے سے ہمارے علمی و ادبی اثاثے کی بقاء ہوگی۔ سماج میں مطالعہ کے ذوق و شوق کو عام کرنا ہوگا۔ قارئین میں عادت مطالعہ ناگزیر ہے۔ شوق مطالعہ کو فروغ دینا ہوگا۔ ریاست، ملک و عالم میں جتنے بھی کتب خانے ہیں، ان میں جو علمی و ادبی اثاثہ ہے، اس کا فروغ کتابی کلچر کو فروغ دینے سے ہوگا۔ چنانچہ اس جذبے کو فروغ دینے کیلئے اراکین مجلس عاملہ و علمیہ ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ادارۂ ہذا کے 60 سال کی تکمیل پر سہ روزہ سیمینار منعقد کیا اور مزید سرگرمیاں سال بھر جاری رہیں گی۔ ماہ نومبر میں تعلیمی اداروں میں تحریری، تقریری، ادبی کوئز، وغیرہ مقابلے منعقد ہوں گے۔ ادارہ کئی برسوں سے غیرکارکرد تھا بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے سرگرمیاں کم ہوگئی تھیں۔ اب اس ادارہ کے صدرنشین سابق صدر شعبہ اُردو جامعہ عثمانیہ پروفیسر اشرف رفیع نائب صدر سینئر ایڈوکیٹ جناب غلام یزدانی، پروفیسر ایس اے شکور، ناظم مجلس علمیہ احمد علی اعزازی معتمد و ناظم اور اراکین عاملہ کی سرپرستی میں سہ روزہ سمینار منعقدہ ہوا۔ سمینار کا افتتاحی اجلاس 24 اگست 2019ء کو ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ باغ عامہ میں شروع ہوا۔ موسم بھی صاف تھا۔ دھوپ میں ہلکی سی تمازت تھی۔ مہمان خصوصی اور سامعین 11 بجے صبح تک خراما خراما تشریف لا رہے تھے۔ ادارہ سے وابستہ عہدیدار و اراکین انتظامی مصروفیات میں مگن تھے۔ اے کے خاں مشیر کابینی درجہ حکومت تلنگانہ کی آمد کے ساتھ ہی جلسے کا آغاز ہوا۔ اے کے خاں نے کہا کہ ہم لوگوں کی نظر اردو کے علمی و ادبی سرمایہ پر ہے، اس کو کس طرح استعمال میں لایا جائے، مختلف کتب خانوں کی حفاظت کئے کی جائے عوام کے تعلیمی و تہذیبی اور علمی و ادبی مسائل کو حکومت سے حاصل کروانا ہے۔ گنڈی پیٹ میں اسلامک مشن ادارہ کیلئے 300 ایکر زمین کی کوشش چل رہی ہے تاکہ ملت کا کلیدی ادارہ وہاں قائم ہوسکے۔ اس ادارہ نے جشن الماس اور مختلف سرگرمیوں کو منعقد کرکے سماج میں شعور بیداری کا کام کیا اور جو وقت کی ضرورت ہے۔ جلسے کی صدارت پروفیسر اشرف رفیع صدرنشین نے کی۔ ابتداء میں سیکریٹری ڈائریکٹر احمد علی کیوریٹر نظامس میوزیم نے ادارہ کی 60 سالہ خدمات سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ادارہ نے 89 کتب کی اشاعت عمل میں لائی۔ پروفیسر سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ نے افتتاحی اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لائبریریوں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ حضرت آدم و نوح علیھم السلام سے کتب خانوں کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے مصر و یونان کے کتب خانوں کے علمی و ادبی سرمایہ کا جائزہ لیا اور بنی اُمیہ، بنو عباسیہ، مغل، عادل شاہی دور، بہمنی دور، قطب شاہی، آصف جاہی، عہد کے کتب خانوں میں جو مخطوطات ہیں، ان کی اہمیت و افادیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پروفیسر نسیم الدین فریس ڈین مانو نے ہندوستانی کتب خانوں پر کلیدی خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ خاص کر کرناٹک میں کتب خانوں میں جو اثاثہ موجود ہے، وہ قیمتی علمی و ادبی سرمایہ ہے، شمالی ہند اور جنوبی ہند میں کتب خانوں میں جو علمی اثاثہ موجود ہے، اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ سرمایہ عدم توجہ سے تلف ہوجائے گا۔

پروفیسر اشرف رفیع نے اپنے صدارتی خطاب میں مولانا آزاد ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور دیگر کتب خانوں کی اہمیت اور موجوں دور میں اس کی ضرورت کا احساس دلایا۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں موجود کتب خانوں میں علمی و ادبی سرمایہ نسخہ و مخطوطات بہت زیادہ ہے اور ایسا معیاری علمی سرمایہ شامل ہیں، کہیں اور جگہ دستیاب ہوگا۔ ان کی حفاظت اُردو داں طبقہ اور حکومت کرے۔ اس جلسہ میں ادارہ کے نائب صدر غلام یزدانی اراکین عاملہ فاطمہ احمد، سجادہ شاہد اکیڈیمک کونسل کے اراکین فریداللہ شریف، احمد علی خاں، علمی معروف علمی و ادبی شخصیتیں موجود تھیں۔ اے کے خاں نے استاد خطاط عبدالغفار کو توصیف نامہ پیش کیا اور خطاطی کے طلبہ میں انعامات اور اسناد وغیرہ تقسیم کئے۔ 25 اگست 2019ء کو صبح پہلے سیشن میں پروفیسر اشرف رفیع صدرنشین ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ باغ عامہ نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مخطوطات کی اہمیت بہت زیادہ ہے، کروڑوں کی مالیت کے ہیں۔ ڈیجیٹل لائبریری مخطوطات کا متبادل نہیں اس کی اچھی طرح دیکھ بھال نگہداشت ضروری ہے۔ حیدرآباد کے کتب خانوں میں قیمتی مخطوطات نسخے بھرے پڑے ہیں۔ ان کی بقاء کا سامان پیدا کرنا ہوگا، ان کے وارثین کو پیدا کرنا ہوگا، ورنہ آئندہ کیا ہوگا، نہیں معلوم۔ اجلاس اول میں ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑ تاڑو اکاڈیمک سینٹ ممبر تلنگانہ یونیورسٹی نے ایچ ای ایچ دی نظامس اُردو ٹرسٹ لائبریری کے مخطوطات کا جائزہ لیا اور کہا کہ اس کتاب خانہ میں نادر و نایاب قیمتی مخطوطات و نسخے موجود ہیں۔ استفادہ کرنے والا کوئی نہیں، اس کی مطبوعات میں روبوٹ، قلی قطب شاہ، ٹیپو سلطان، شاہی شادی، مظہر خیالی، گلاسری، چہارچمن، مملکت آصفیہ میں اردو کی ترویج و ترقی۔ The Legacy of Nizams ، تاریخ گلزار آصفیہ، تاریخ دکن قدیم شامل ہیں۔ یہاں کے ملک سے آنے والے رسائل، اخبارات کی جلدیں موجود ہیں۔ فریداللہ شریف ریسرچ اسسٹنٹ سالار جنگ میوزیم نے میوزیم کے کتب خانہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے فارسی کے مصور مخطوطات و علمی و ادبی سرمایہ پر روشنی ڈالی۔ کفیل احمد نے جامعہ نظامیہ کے کتب خانہ کا تعارف اور وہاں موجود علمی و ادبی سرمایہ پر جائزہ لیا۔ پروفیسر حبیب نثار صدر شعبہ اُردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے ادارہ ادبیات اردو کے مخطوطات اور ان کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹر زرینہ پروین ڈائریکٹر تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز نے کہا کہ آرکائیوز ریکارڈ کی اہمیت اور اس کا تحفظ ناگزیر ہے۔ یہاں پر مغل، آصف جاہی خاندان دور حکومت کے فرامین اور دیگر محکموں کے ریکارڈ موجود ہیں، ان کی بقاء ضروری ہے، ورنہ یہ سرمایہ تلف ہوجائے گا۔ محمد عبدالعزیز ریسرچ اسکالر تلنگانہ یونیورسٹی نے مکہ مسجد کے کتب خانہ اسلامیات کا تعارف کرایا۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ معتمد اعزازی و ڈائریکٹر احمد علی کیوریٹر نظامس میوزیم نے شکریہ ادا کیا۔ 26 اگست 2019ء کو تیسرے دن کا پہلے اجلاس میں مختلف دانشوروں نے اجلاس میں اظہار خیال کیا۔ دکن کے کتب خانے مختلف علوم و فنون کے منبع و مراکز ہیں۔ مخطوطات اور نسخوں پرPh.D کا کام کروائیں۔ پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے کہا کہ حیدرآباد دکن میں اورنگ آباد کو مخطوطات اور علمی و ادبی لحاظ سے منفرد مقام حاصل ہے۔ یہاں پر دولت آبادی کاغذ پیدا ہوتا ہے اور اس کا استعمال پورے ملک میں پیدا کرتا تھا۔ بادشاہوں کے فرامین بھی اسی کاغذ پر جاری ہوتے تھے۔ انہوں نے حیدرآباد دکن میں موجود مخطوطات اور ادبی نسخوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اے آر منظر اسوسی ایٹ پروفیسر حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے مخطوطات و مطبوعات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم نے ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹیٹیوٹ حیدرآباد کے علمی و ادبی اور مخطوط و مطبوعات کا گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا اور اس ادارہ کی بقاء کیلئے دانش مندانہ تجاویز پیش کئے۔ ڈاکٹر سید عبدالمہمین قادری لااُبالی الجیلانی ڈائریکٹر ہادی دکن لائبریری کا مقالہ حافظ محمد اسلم نے بعنوان ہادی دکن کتاب خانے کے مخطوطات کا جائزہ پیش کیا۔ محترمہ قیصر بیگم لائبریرین سرنظامت جنگ میوزیم لائبریری نے اپنے کتاب خانے کا تعارف اور مخطوطات اور علمی و ادبی سرمایہ پر روشنی ڈالی۔ اجلاس چہارم میں بحیثیت صدر پروفیسر شوکت حیات نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست آندھرا پردیش کرشنا ضلع کے کتب خانوں میں علمی و ادبی سرمایہ موجود ہے اور کرشنا ضلع میں مدرسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخطوطات و نسخہ سے آگہی و آگاہی کیلئے نسل نو کیلئے تعلیمی نصاب میں ایک سوال پوچھا جائے یا نصاب میں ایک Chapter مخطوطات کا رکھا جائے تاکہ ایسے سرمایہ کی بقاء ہوسکے۔ احمد علی نے کتاب خانے سالار جنگ میوزیم میں موجود 30 ورقی قرآن کی خصوصیات خوبیاں بیان کی ہے اور 30 صفحات پر قرآن موجود ہے۔ پروفیسر مجید بیدار نے دکن کے اولیاء کے مخطوطات کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر جہانگیر احساس اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ جونیر کالج چنچل گوڑہ نے نظامیہ طبی کالج کے مخطوطات پر روشنی ڈالی۔ جناب میر کمال الدین علی خاں رجسٹرار خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی نے اراکین ادارۂ ہذا کو مبارکباد دی اور خطاطی کے طلبہ میں انعامات تقسیم کئے ہیں۔ جناب غلام یزدانی سینئر ایڈوکیٹ ہائیکورٹ و نائب صدرنشین نے ادارہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں مطالعہ کا ذوق و شوق اور زیادہ پیدا کرنا چاہئے۔ مطالعہ کی عادت سے ان اداروں کی بقاء ہوگی۔ یہاں صرف حیدرآباد میں واقع کتاب خاتون کی تفصیل دی جارہی ہے، جہاں بیش بہا کتابوں کا خزانہ موجود ہے۔
(1) ادارۂ ادبیات اردو کے عربی مخطوطات
(2) کتاب خانہ جامعہ عثمانیہ
(3) اورینٹل مانو اسکرپٹ کتب خانہ
(4) جامعہ عثمانیہ کا کتاب خانہ
(5) مرکز اردو زبان و تمدن
(6) کتب خانہ سالارجنگ میوزیم
(7) ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ
(8) سالارجنگ میوزیم
(9) کتب خانے جامعہ نظامیہ
(10) تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز
(11) او ایم ایل
(12) کتب خانہ اقبال اکیڈیمی
(13) کتب خانہ اُردو ہال، حمایت نگر
(14) نظامس اُردو ٹرسٹ لائبریری
(15) سرنظامت جنگ لائبریری
(16) نصیرالدین ہاشمی کی لائبریری
(17) سعدیہ لائبریری جام باغ
(18) اقبال اکیڈیمی کا کتاب خانہ
(19) چیاریٹیبل لائبریری عابڈز
(20) ولا اکیڈیمی، نور خاں بازار
(21) شاہ علی بنڈہ لائبریری
(22) کوٹلہ عالی جاہ لائبریری
(23) آصفیہ لائبریری، افضل گنج
(24) ادارۂ ادبیات لائبریری، پنجہ گٹہ
(25) UOH کا کتاب خانہ
(26) MANUU کا کتاب خانہ
(27) OU کا کتاب خانہ
(28) امبیڈکر یونیورسٹی کا کتاب خانہ
(29) کتب خانہ اُردو ہال حمایت نگر
(30) کتب خانہ انجمن مہدویہ
(31) عثمانیہ کالج کے مخطوطات کی نقل
(32) نظامیہ کتب خانہ
(33) تلنگانہ اسٹیٹ میوزیم
ان کے علاوہ خانقاہوں، درگاہوں، مسجدوں سے منسلک کتاب خانوں کی اہمیت آج بھی ہے۔ مختلف پروفیسروں کا کتاب خانہ اور پبلیشروں اور کتب تاجروں کا کتاب خانہ وغیرہ میں مختلف علوم و فنون کے ذخیرے سے موجود ہیں۔ ان میں گراں قدر کتب موجود ہوتے ہیں۔ صمد بھائی کا کتاب خانہ وغیرہ مذکورہ کتاب خانوں میں قیمتی اثاثہ موجودہ ہے۔ علم و ادب کا خزانہ ہے۔ اس کی بقاء اور فروغ کیسا ہوگا۔ اس کیلئے ہمیں چاہئے کہ اُردو طبقہ نسل نو میں اردو سکھانے پڑھانے کا انتظام کریں۔ اگر اردو والے اب بھی ہوش نہ آئیں تو ہمارے اسلاف کے علمی وادبی سرمایہ کا پرسان حال کون ہوگا، لہذا نئی نسل کو اور عوام کو اُردو سے مربوط کرنا ہوگا تاکہ یہ نسل اُردو پڑھ کر سیکھ کر مختلف کتب خانوں میں موجود مخطوطات، نسخہ علمی و ادبی سرمایہ و اثاثے کو محفوظ رکھ سکیں اور وہ اس سے استفادہ کرتے رہیں۔٭