ابھی اور بہت محمد سجاد مارے جائیں گے لیکن ہم کو ہوش نہیں آئے گا !

   

ظفر آغا

اللہ رے ہم ہندوستانی مسلمانوں کی بے حسی! اب تو میں خود یہ جملے لکھتے لکھتے تھک گیا مگر ہماری بے حسی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آخر میں یہ کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا تو سنئے! جب نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد دہلی کے قریب محمد اخلاق نام کے شخص کی غازی آباد میں ماب لنچنگ ہوئی تو سارے ملک میں ہنگامہ بپا ہوگیا۔ اس کے خلاف بڑے بڑے احتجاج ہوئے۔ جلسے جلوس نکلے، دہلی میں ’’ناٹ ان مائی نیم‘‘ کی تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی پھر جو ماب لنچنگ کا واقعہ درپیش ہوا، مسلمانوں نے مارے جانے والے افراد کی جو مالی مدد ممکن ہوسکتی تھی، وہ مدد بھی کی لیکن دھیرے دھیرے ماب لنچنگ کے واقعات بڑھتے گئے، امت مسلمہ کا جوش و خروش ختم ہوتا گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ ماب لنچنگ کی چھوٹی سی خبر چھپتی ہے اور مارے جانے والے افراد پر چار آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔
اگر ایسا کوئی واقعہ خدا نہ کرے سکھ قوم کے کسی نوجوان کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو گردواروں سے لے کر سارے دنیا بھر کی سکھ تنظیمیں، بیوہ ماں کے لئے کھڑی ہوجاتی۔ مجھ کو یاد ہے کہ 1984ء میں دہلی میں زبردست سکھ دنگے ہوئے اور سکھوں کی دکانیں جلائی گئیں تو چوتھے روز جلی ہوئی دوکان کے سکھ مالکان نے اپنی دکانیں کھول دیں اور انہیں ساز و سامان بھی جمع ہوگیا۔ میں نے جب پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے کھڑے ہوگئے تو جواب ملا، ہمارے بھائیوں نے ہماری مدد کی۔
یاد رکھئے! سکھوں کی آبادی اس ملک کی کل آبادی کے تناسب میں کل 1% ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی کم از کم 15% ہے اور ہمارا عالم یہ ہے کہ دہلی میں پچھلے سال جو زبردست فسادات ہوئے تھے، انہیں تباہ ہونے والے درجنوں افراد ابھی بھی لاچار اور بے سہارا گھوم رہے ہیں۔ ہاں سیاست ملت فنڈ ، فیض عام ٹرسٹ اور جمعیت جیسی دو ایک تنظیموں نے کچھ امداد ضرور پہنچائی ہے لیکن سکھوں کی طرح وہ ایسی نہیں کہ ہر کسی کے آنسو پونچھے گئے ہوں۔ آخر کیا بات ہے کہ ایک چھوٹی سی قوم فساد کے چار دن بعد اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے لیکن کثیر آبادی والے مسلمان اپنے بے حال و پریشان بھائیوں کیلئے خاطر خواہ مدد مہیا نہیں کرسکتے۔ مدد تو جانے دیجئے، میں اور آپ ایسے بہت سے واقعات سے واقف ہیں کہ کہیں فساد ہوا اور لوگوں نے رسید چھپوائی اور گلف اور یوروپ، امریکہ تک امداد کے نام پر چندہ جمع کیا اور ہضم کرگئے۔ میں دہلی میں خود ایک ایسے انتہائی باعزت اور ملت کے ہمدرد سے واقف ہوں جس کی تجارت ہی مسلمانوں کی امداد کے نام پر چندہ جمع کر عیش کرنا ہے اور تو اور میرٹھ کے نزدیک ملیانہ کے فساد میں جن لوگوں کو پولیس نے گولی مار کر دریا میں بہا دیا تھا، ان کے نام پر قوم کے بڑے نامی گرامی قائدین نے 11 کروڑ روپئے کی رقم 1980ء کی دہائی میں اکٹھا کی لیکن مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کا آج بھی یہی الزام ہے کہ ان کو اس رقم میں سے ایک پائی نہیں میسر ہوئی۔
یہ ہے اُمت مسلمہ کی بے حسی کا عالم۔ جناب اس کام کیلئے کبھی آر ایس ایس اور بی جے پی نے آپ کو نہیں روکا۔ بات یہ ہے کہ جب کسی قوم کا یہ عالم ہوجائے کہ اس میں وقف کی رقم خردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار وسیم رضوی جیسے لوگ موجود ہوں تو پھر اس قوم کا یہ عالم نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگا۔ ایک وسیم رضوی کو کیا روئے ، لاکھوں کروڑ روپئے کی اوقافی جائیدادوں کو کوڑیوں میں بیچ کر قوم کے قائدین کھا گئے اور کسی کے ماتھے پر شکن نہیں۔ بھلا ایسی قوم میں اگر محمد سجاد نام کا شخص ماب لنچنگ کے ذریعہ مارا جاتا ہے تو بھلا اس کی ماں کا کون پرسان حال ہوگا!
لیکن یہ وہی قوم ہے جو کوئی 200 سال قبل تک دنیا کی سوپر پاور تھی۔ اُموی و عباسی خلافتیں، ترکی کی خلافت، مغل سلطنت جیسی عظیم الشان تاریخ سے لیس قوم اب اس عالم میں ہے کہ اس کو دنیا میں جب جو چاہے، جہاں چاہے پیٹ لے، جس قوم نے اس ملک میں کوئی 800 سال حکومت کی ہو، اب وہ ماب لنچنگ کا شکار ہے۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہے۔ یاد رکھئے جب حاکم تھے تو آج سے بھی زیادہ اقلیت میں تھے۔ یعنی اقتدار کا تعلق نمبر سے نہیں ہوتا۔ وہ قومیں جو ترقی کرنا چاہتی ہیں، ان کو اکثریت و اقلیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ ترقی کا تعلق نمبر سے نہیں عقل سے ہوتا ہے اور عقل مند وہی ہوتا ہے جو اپنے دور کے تمام علوم پر قادر ہوتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں میں پاکستان نے واحد ایک ایسا سائنس داں پیدا کیا تھا جس کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس کو پاکستان نے شہریت سے بے دخل کردیا جس قوم میں عاقل کی قیمت نہیں ہوگی، اس قوم کے محمد سجاد کی مائیں اٹھ اٹھ کر آنسو بہائیں، کبھی یہ قوم کو شرم نہیں آئے گی۔ شرم ان کو آتی ہے جن کی حس ہو۔ جب حس ہی ختم ہو۔ ہمارے پاس نہ تو کوئی ڈھنگ کی تنظیم اور نہ ہی بے لوث افراد ہیں جو قوم پر جان چھڑکنے کیلئے تیار ہوں۔ بقول علامہ اقبالؔ عالم اسلام کی خودی ختم ہوچکی ہے، اب اس قوم کو احساس اور حس آئے تو آئے ۔ نہ جانے اور کتنے محمد سجاد اس طرح مار دیئے جائیں گے اور ان کی مائیں، ایسے ہی بے سہارا گھومتی رہیں گی۔ ہم اور آپ جیسے چند لوگ واویلا کریں گے اور بس پھر بات ختم۔