اب دلتوں سے غیر انسانی سلوک

   

تمام عمر یونہی ہوگئی بسر اپنی
شبِ فراق گئی روزِ انتظار آیا

ملک میں بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے واقعات مسلسل پیش آتے رہے ہیں۔ کہیں کسی پہلو خان کا قتل کردیا جاتا ہے تو کہیں کسی جنید کو چلتی ٹرین سے پھینک دیا جاتا ہے ۔ کہیں اخلاق کا قتل کردیا جاتا ہے تو کہیں کسی اور ہجوم پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ اقلیتوں کے علاوہ دلتوںکو نشانہ بنانے میں بھی بی جے پی کے حامی یا اس کے قائدین اجتناب نہیںکرتے ۔ انسانی جانوں سے کھلواڑ ان کیلئے عام بات ہوگئی ہے ۔ گذشتہ دنوں ہماچل پردیش میں ایک بی جے پی لیڈر کے ریسارٹ میں ایک نوجوان لڑکی کا قتل کردیا گیا ۔ اس قتل میںلیڈر کا نوجوان بیٹا ملوث قرار دیا گیا ۔ بی جے پی نے اس لیڈر سے اپنا تعلق ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے ۔ اب بی جے پی کے اقتدار والی جنوبی ریاست کرناٹک میں ایک شرمسار کردینے والا غیر انسانی واقعہ پیش آیا ہے ۔ یہاں بی جے پی کے ایک کٹر حامی لیڈر اور اس کے بیٹے پر 16 دلت افراد کو یرغمال بنائے رکھنے ‘ انہیں مارپیٹ کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کا الزام ہے ۔ ایک حاملہ خاتون کو اس قدر مارپیٹ کی گئی کہ اس کا حمل ضائع ہوگیا ۔ یہ بھی ایک طرح کا قتل ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ابتداء میں ان افراد کو یرغمال بنائے جانے کے خلاف پولیس میںشکایت درج کروائی گئی تھی ۔ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور بی جے پی لیڈر اور اس کے حواریوں نے بزور طاقت اس شکایت سے دستبرداری اختیار کروادی ۔ اس کے بعد حاملہ خاتون کی طبیعت بگڑ گئی ۔ اس کا حمل ضائع ہوگیا ۔ اسے جب دواخانہ میںشریک کیا گیا تو ضلع ایس پی سے شکایت درج کروائی گئی ۔ ان کی مداخلت پریہ مقدمہ درج کیا گیا ۔ انسانوںکویرغمال بنائے رکھنا ۔ انہیں مارپیٹ کرنا اور حاملہ خاتون سے اس قدر غیر انسانی سلوک کرنا کہ اس کا حمل ضائع ہوجائے انتہائی شرمسار کردینے والا واقعہ ہے ۔ حالانکہ خاطیوںاور ذمہ داروں کے خلاف پولیس نے بحالت مجبوری مقدمہ درج کرلیا ہے تاہم یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔
اکثر و بیشتر اس طرح کے واقعات میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے قائدین کے نام ہی سامنے آتے ہیں۔ وہ انسانوں یا انسانی جانوںکی کوئی پرواہ نہیںکرتے ۔ مرکزی وزیر اجئے کمار مشرا کے فرزند پر اترپردیش کے لکھیم پور میں کسانوںپر جیپ دوڑا دینے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ انہیں بھی عدالت سے ضمانت ہوگئی لیکن بی جے پی نے مرکزی وزیرکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ اسی طرح ہماچل پردیش میں بی جے پی لیڈر کو صرف معطل کیا گیا ۔ اب کرناٹک میں جوواقعہ پیش آیا ہے اس پر بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس شخص کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ پارٹی کا نہ ورکر ہے اور نہ ہی کارکن ہے ۔ وہ صرف پارٹی کا حامی ہے اور ایک عام ووٹر کی طرح ہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی سیاسی اور سرکاری سرپرستی کے بغیر اس طرح کے واقعات پیش نہیں آسکتے ۔ اگر پیش آ بھی جائیں تو خاطیوںکو عدالتوں سے ضرور سزائیں ملتی ہیں۔ تاہم اکثرمعاملات میں بی جے پی اپنے ریاستی اور مرکزی اقتدار کا استعمال کرتے ہوئے اس طرح کی بیمار ذہنیت کے قائدین کو سزاوںسے بچا بھی لیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگر اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں اور بی جے پی قائدین اور کارکنوں کیلئے قانون کا کوئی خوف باقی نہیںرہ گیا ہے ۔ وہ ایک طرح سے خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے خلاف مقدمات انتہائی کمزور ہوتے ہیں اور انہیں عدالتوں سے بری کروالیا جاتا ہے ۔
گذشتہ دنوں گجرات میں بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے اور رحم مادر میں اس کے بچے کا قتل کردینے والے جنونیوںکو بھی جیل سے رہا کروالیا گیا ۔ اس وقت بھی بی جے پی نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا بلکہ خود بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی ان مجرمین کو رہاء کروانے کی سفارش کرنے والوں میں شامل تھے ۔ بعد میں ان تمام کو سنسکاری قرار دیدیا گیا ۔ اب یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کیلئے سنسکاری کون لوگ ہیں۔ کیا انسانی جانوںسے کھلواڑ کرنے والے اور خواتین کی عصمتوںکو تار تار کرنے والے سنسکاری ہوسکتے ہیں؟۔ اس طرح کے مجرمین کے خلاف بی جے پی کو سخت موقف اختیار کرنا ہوگا اور غیر انسانی سلوک کرنے والوں کو کیفرر کردار تک پہونچانے کی ضرورت ہے ۔