اب شہریت ترمیمی بل

   

انہیں پھر سے تازہ جفائوں کی سوجھی
مری چشم نم جو زرا مسکرائی
اب شہریت ترمیمی بل
مرکز کی نریند رمودی حکومت مسلسل بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے قوانین پر توجہ دے رہی ہے جس سے اس کے سیاسی ایجنڈہ کی تکمیل ہوتی ہے ۔ خاص طور پر اپنی دوسری معیاد میں بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت مخالف مسلم ایجنڈہ پر زیادہ زور دینے لگی ہے کیونکہ اب ملک کے عوام کو معاشی سست روی اور روزگار کے بحران کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ عوام کو انہیں بنیادی مسائل سے ہٹاتے ہوئے اپنے سیاسی استحکام کیلئے حکومت پورا زور لگانے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ اب ایک اور مخالف مسلم ایجنڈہ یعنی شہریت ترمیمی بل بھی پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظور کروانے کی کوشش تیز کردی گئی ہے ۔ حکومت نے پیر سے شروع ہو رہے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے ایجنڈہ میں شہریت ترمیمی بل کو ترجیحا شامل کیا ہے ۔ اس بل کے تعلق سے پہلے ہی سے کہا جا رہا ہے کہ اس کی منظوری کے بعد ہی سارے ملک میں این آر سی نافذ کیا جائیگا ۔ وزیر داخلہ و بی جے پی صدر امیت شاہ بارہا واضح کر رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ پہلے ہندووں ‘ سکھوں ‘ عیسائیوں ‘ پارسی اور جین برادری کے افراد کو ہندوستان کی شہریت دی جائیگی ۔ اگر کسی کو شہریت نہیں دی جائیگی تو وہ مسلمان ہونگے اور اس بل کی منظوری کے بعد ملک بھر میں این آر سی کا نفاذ عمل میں لایا جائیگا ۔ اس طرح یہ واضح طور پر اعلان ہے کہ این آر سی ہو یا پھر شہریت ترمیمی بل ہو یہ سب کچھ مسلمانوں کے خلاف ایجنڈہ کا حصہ ہے اور حکومت ہر قیمت پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہو یا پھر یکساں سیول کوڈ ہو یا پھر شہریت ترمیمی بل ہو حکومت صرف اور صرف ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی یعنی مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ ملک کے وزیر داخلہ واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ اس بل کے ذریعہ سوائے مسلمانوں کے ہر ایک کو شہریت دی جائے گی ۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ حکومت مذہب کی اساس پر کام کر رہی ہے جبکہ ملک کے دستور اور قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ایسا کرنا ملک کے دستور اور قانون سے مذاق کرنے اور کھلواڑ کرنے کے مترادف ہی ہے ۔
حکومت مذہب کی اساس پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے عمل کو ہی اپنا ایجنڈہ بنائے ہوئے ہے ۔ اگر کہیں مسلمانوں کو ان کی معاشی اور سماجی و تعلیمی غربت کی اساس پر تحفظات کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ تحفظات مذہب کے نام پر نہیں دئے جاسکتے ۔ تاہم جب انہیں نشانہ بنانے کا منصوبہ ہوتا ہے تو خود حکومت مذہب کی اساس پر کام کرنے سے گریز نہیں کرتی ۔ یہ حکومت کی ڈوغلی پالیسی اور دوہرا معیار ہے اور اس کے ذریعہ بی جے پی اپنے اور آر ایس ایس کے ایجنڈہ کی تکمیل میں جٹی ہوئی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک انتہائی مشکل معاشی دورسے گذر رہا ہے ۔ عوام کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے ۔ معیشت کی رفتار سست ہوکر رہ گئی ہے ۔ کچھ گوشوں سے کہا جا رہا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر فاقہ کشی کی لعنت پیدا ہوسکتی ہے ۔ روزگار کم ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ ان کی پیداوار میں مسلسل کمی درج کی جا رہی ہے ۔ جملہ گھریلو پیداوار کی شرح گھٹ گئی ہے ۔ عالمی ریٹنگ اداروں نے بھی ملک کی معاشی سست روی پر اندیشے ظاہر کئے ہیں۔ ایسے میں ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے حکومت صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ایجنڈہ پر گامزن ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کو ملک کے مسائل سے یا پھر عوام کی پریشانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف سنگھ کے ایجنڈہ کی تکمیل ہی کو اپنا فریضہ سمجھنے لگی ہے ۔
اب جبکہ حکومت کا یہ ایجنڈہ سامنے آچکا ہے اور اس نے صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واضح اشارے بھی دیدئے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کروایا جائے تو نہ صرف ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کا بلکہ حکومت کا ساتھ دینے والی جماعتوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ اس بل کی منظوری کو روکنے کی کوشش کریں ۔ اس بل میں درکار ترامیم کو پیش کیا جائے ۔ مذہب کی اساس پر کسی امتیاز کے امکان کو ختم کرنے کیلئے انہیں ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ جماعتیں بھی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتی رہیں تو جو خطرناک ایجنڈہ ہے وہ پورا ہوتا جائیگا اور اس کی ذمہ داری جہاں بی جے پی کی نریند رمودی حکومت پر عائد ہوگی وہیں دوسری تمام سیاسی جماعتیں بھی اس کی ذمہ داری سے خود کو بری نہیں کرپائیں گی اور عوام کے سامنے انہیں بھی جوابدہ ہونا پڑیگا ۔