اب ہماچل پردیش نشانہ

   

ملک میں اپوزیشن جماعتوںاور ان کی حکومتوں کو نشانہ بنانے کا عمل ایک عام روایت بن گئی ہے ۔ مرکز میں اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے کئی ریاستوں میںیہ کھیل کھیلا گیا ہے اور اپنے اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے کیلئے انتخابی عمل کو تک بھی مذاق بنانے سے گریز نہیںکیا جا رہا ہے ۔ ملک میںکئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی نے اپنے مرکزی اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے اپنی حکومتوں کے قیام کو یقینی بنایا ہے۔ کرناٹک ہو ‘ مہاراشٹرا ہو ‘ مدھیہ پردیش ہو یا پھر کوئی اور ریاست ہو ۔ ہر مقام پر بی جے پی نے اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے اکسایا ہے ۔ ان کو لالچ دیتے ہوئے یا پھر مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوںکے ذریعہ خوفزدہ کرتے ہوئے ان کی تائید و حمایت حاصل کی گئی اور انہیںبی جے پی کی تائید پر مجبور کرتے ہوئے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں عام انتخابات کا وقت انتہائی قریب آ پہونچا ہے اور چند ہی دنوںمیںلوک سبھا انتخابات کا اعلامیہ جاری ہوسکتا ہے ایسے میں راجیہ سبھا انتخاب کے دوران ہماچل پردیش کو نشانہ بنایا گیا ۔ وہاں برس اقتدار کانگریس کے چھ ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے مجبور کیا گیا ۔ راجیہ سبھا انتخاب کیلئے رائے دہی میںچھ ارکان اسمبلی نے کانگریس کے وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ جس دن رائے دہی ہوئی اسی شام کو ان ارکان اسمبلی کو پہلے شملہ منتقل کیا گیا اور پھر بعد میں وہ کسی نا معلوم مقام کو منتقل کردئے گئے ۔ اس سارے کھیل کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح سے ریاست میں کانگریس حکومت کاتختہ پلٹ دیا جائے اور وہاں بھی بی جے پی حکومت تشکیل دیدی جائے ۔ پہلے تو یہ دعوی کیا گیا تھا کہ چیف منسٹر سکھویندر سنگھ سکو نے استعفی پیش کردیا ہے ۔تاہم چیف منسٹر نے اس کی تردید کی ۔ اب بی جے پی کی جانب سے چھ ارکان اسمبلی کے انحراف اور بی جے پی کے حق میںووٹ دینے کو مثال بناتے ہوئے ریاست میں عددی طاقت ثابت کرنے کا مطالبہ کردیا گیا ہے ۔ یہ سارا کچھ اقتدار کیلئے ہو رہا کھیل ہے ۔
انحراف کی روایت کو بی جے پی نے جس طرح سے عام روایت بنادیا ہے اس سے ملک میں جمہوریت اور انتخابی عمل کا مذاق بنتا جا رہا ہے ۔ کسی ایک جماعت سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ پر یا تو دباؤ بنایا جاتا ہے یا پھر انہیںہراساںکرتے ہوئے انہیںانحراف کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ۔ جن ریاستوں میں جن پارٹیوںکو عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل ہو رہا ہے ان کو اقتدار سے محروم کرتے ہوئے عوامی رائے کی ہتک اور توہین کی جا رہی ہے ۔ عوام کے ووٹ کو خاطر میں لانے بی جے پی تیار نہیں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ سارے ملک اور ملک کی ہر ریاست پر صرف اسی کا اقتدار رہے ۔ وہ کسی اور جماعت کو کسی بھی ریاست میں برسر اقتدار دیکھنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے ہندوستان میں انتخابی عمل کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ اب اس بات کی کوئی ضمانت نہیںرہ گئی ہے کہ عوام جس پارٹی یا امیدوار کو ووٹ دینگے وہی برسر اقتدار رہیں گے ۔ عوامی منتخب نمائندوں میںلالچ یا خوف کا عنصر پیدا کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جا رہی ہے اور اپنے اقتدار کو یقینی بناتے ہوئے اپنے عزائم اور مقاصد کی تکمیل کی جا رہی ہے ۔ مرکز میں دس برس سے اقتدار پر رہنے والی جماعت کیلئے یہ کوششیں ہرگز بھی ذیب نہیں دیتیں۔ عوامی رائے کے احترام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ کسی بھی جماعت کے اقتدار کو برداشت کرنا ہی نہیںچاہتی ۔
جس طرح کا کھیل ہماچل پردیش میں کھیلا جا رہا ہے وہ بھی ایک افسوسناک پہلو ہے کیونکہ یہاں بھی کانگریس کو ریاست کے عوام نے ووٹ دیتے ہوئے منتخب کیا تھا ۔ ملک میں جو قانون انحراف ہے اس کا بھی مذاق اور کھیل بنادیا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انحراف سے متعلق قانون کومزید سخت کردیا جائے اور قانون میں یہ گنجائش فراہم کی جائے کہ ایک جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر اگر دوسری جماعت کی تائید کی جائے تو وہ رکن اسمبلی ہو یا رکن پارلیمنٹ ہو وہ فوری ایوان کی رکنیت سے محروم ہوجائے ۔ اسی طرح سے انحراف کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور اسی طرح سے انتخابی عمل کی اہمیت کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔