احمق اور بزدل حکومت

   

پی چدمبرم
یکم فبروری کو بجٹ 2020-21ء پیش کیا گیا۔ اسے 2 فبروری کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی اور اداریوں کا موضوع بنایا گیا لیکن اگلے روز یہ اخبارات کے صفحات اول اور ٹیلی ویژن چیانلوں سے عملاً غائب ہوگیا۔ یہ کسی فلم کی مانند ہے جو پہلے دن باکس آفس پر بُری طرح ناکام ہوگئی۔ بی جے پی، وزیراعظم اور وزیر فینانس کو خود ذمہ داری لینی ہوگی۔ وہ چیف اکنامک اڈوائزر کو موردالزام نہیں ٹہرا سکتے، جنھوں نے معاشی سروے میں کچھ معقول مشورے دیئے۔ اور نہ ماہرین معاشیات اور بزنس لیڈروں پر الزام ڈال سکتے ہیں جنھوں نے وزیراعظم سے ماقبل بجٹ مشاورتوں کے سلسلہ میں ملاقات کی۔ تجاویز تو بہت تھیں۔ مارکیٹس میں اتھل پتھل کی عکاسی کرتے ہوئے میں نے 26 جنوری کے میرے کالم میں 10 چیزیں بیان کئے تھے جو وزیر فینانس اس بجٹ میں کرسکتی تھیں۔ اگر وزیر فینانس نے معاشی مشیر اعلیٰ یا ماہرین معاشیات کے مشورہ پر توجہ نہیں دی یا بزنس پرسنس کے مطالبات پر نرم نہیں پڑی ہیں تو اس کی حسب ذیل وجوہات ہیں:
1۔ حکومت کا موڈ انکار کرنا
حکومت نے قبول نہیں کیا ہے کہ نوٹ بندی اور ناقص جی ایس ٹی تاریخی غلطیاں ہوئیں جن سے MSMEs (مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزس) برباد ہوئے اور نوکریاں ختم ہوگئیں۔ حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے کہ معاشی سست روی کے اسباب گھٹتی برآمدات، اقتصادی شعبہ میں عدم استحکام، ناکافی کریڈٹ سپلائی، گھرانوں میں کمتر بچتیں اور انحطاط پذیر کھپت، کانکنی اور مینوفیکچرنگ ناکام ہوجانا اور سرایت کرگئی غیریقینی کیفیت اور خوف ہیں۔ بدقسمتی سے وزیر فینانس نے معیشت کی ان منفی باتوں کا اپنی تقریر میں کوئی ذکر نہیں کیا۔
2۔ حکومت کا معیشت کی حالت کا مایوس کن غلط اندازہ
حکومت کا ماننا ہے کہ معیشت کی سست روی دَوری عوامل کے سبب ہے اور اگر وہ مزید وہی کچھ کرتے رہیں تو معیشت میں تیزی آجائے گی، جیسے رقم کی تلاش میں سرگرداں رہنا، جاریہ پروگراموں میں مزید رقم جھونکنا اور نئے پروگراموں کا اعلان کرتے رہنا ۔ اگر معاشی سست روی کے اسباب دَوری سے کہیں زیادہ ترکیب اور بنیادی ڈھانچہ سے متعلق ہیں جیسا کہ کئی ماہرین معاشیات کا ماننا ہے، تو حکومت نے عملاً پہلے ہی ان ممکنہ متبادلات کی راہ بند کردی ہے جو اسے معیشت کو بحال کرنے درکار تھے۔
3۔ حکومت کا نظریاتی برتاؤ معاشی بحالی میں رکاوٹ
حکومت فرسودہ فلسفوں جیسے تحفظ پسندی، درآمد کے متبادل، ’طاقتور‘ روپیہ وغیرہ پر یقین رکھتی ہے۔ اسے بیرونی تجارت کے کئی فوائد پر یقین نہیں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برآمدات کو فروغ دینے کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش ترک کرچکی ہے۔ اس نے اِمپورٹ ٹیرف میں اضافے کے رجعت پسند آئیڈیا کو اپنا لیا ہے۔ وہ روپیہ کو زیادہ حقیقت پسندانہ سطح ڈھونڈنے کی آزادی دینے میں بھی پس و پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بجٹ سے قبل ہی ایسے موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت نے خود اپنے لئے حل کی کمی کرلی ہے۔
4۔ حکومت وہ اقدامات واپس لینے آمادہ نہیں جن سے حکومت اور بزنس کے درمیان عدم اعتماد گہرا ہوگیا
حکومت نے کئی معاشی قوانین کے ساتھ مجرمانہ عنصر جوڑ دیا ہے۔ اس نے ٹیکس وصول کرنے والے محکمہ جات اور تحقیقاتی اداروں کے کمترین سطح کے عہدیداروں کو تک غیرمعمولی اختیارات عطا کردیئے ہیں۔ ٹیکس کلکشن ٹیکس ٹیررازم بن چکا ہے (وی جی سدھارتھ کو یاد کیجئے)۔ طلب کردہ ٹیکسوں کو چیلنج کرنے یا ادائیگی کا عمل خود حد درجہ ہراسانی بن چکا ہے۔ ’دی چارٹر آف رائٹس آف ٹیکس پیئرس‘ جس کا وزیر فینانس نے وعدہ کیا، اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے کہ کیوں حکومت حکام اور ایجنسیوں کو دی گئی غیرمعمولی آزادی سے سیدھے دستبرداری اختیار نہیں کرتی ہے؟
5۔ حکومت نے خود کو نااہل ناظم ثابت کیا
نوٹ بندی سے جی ایس ٹی تک، سوچھ بھارت مشن سے گھروں کو برقیانے تک، اُجوالا یوجنا سے اُدے تک… ہر پروگرام میں سنگین کوتاہیاں ہیں۔ بدبختی سے حکومت ’’گونج دار چیمبر ‘‘ میں رہتی ہے اور صرف خوشامدانہ باتیں سنتی ہے۔ لہٰذا، ان پروگراموں پر خطیر رقومات خرچ کردینے کے باوجود نتائج غیراطمینان بخش ہیں۔ انتظامی مشینری میں اہلیت کا فقدان ہے کہ عمل آوری کو بہتر بنایا جائے یا حقیقی نتائج کو پیش کیا جائے۔ اس لئے کوئی تعجب نہیں کہ وزیر فینانس نے بے کیف و پھیکے بجٹ، معمولی شرح جی ڈی پی اور ٹیکس وصولیات کے تعلق سے غلط پُرامیدی پر اکتفا کرلیا۔ برائے نام جی ڈی پی 10 فیصد کی شرح پر بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، مجموعی ٹیکس وصولیات 12 فیصد کی شرح پر بڑھنے کا تخمینہ ہے جو ممکنہ نتیجہ نہیں۔ علاوہ ازیں، تخمینی وصولیات اچھے اور خراب متعدد پروگراموں میں تقسیم کردیئے گئے ہیں ، جس کے نتیجے میں ایسے پروگراموں کیلئے زیادہ فنڈز مختص کرنے کی گنجائش کم ہوگئی، جن سے یقینی ہوجاتا کہ غریبوں کے ہاتھوں میں زیادہ رقم تیزی سے پہنچ جاتی۔ MGNREGA، مڈڈے میل اسکیم، فوڈ سپلائی، پی ایم کسان سمان وغیرہ کیلئے جاریہ سال فنڈز خرچ نہیں کئے گئے یا اگلے سال کیلئے گھٹا دیئے گئے ہیں۔ مجھے دیہی آمدنی؍ اُجرتوں یا گھرانوں کی کھپت میں کوئی اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔
انکم ٹیکس دہندہ کو نیچے کے زمروں میں دی گئی نام نہاد ٹیکس رعایت نے ٹیکس اسٹرکچر میں ہلچل مچا دی اور اُلجھن پیدا کردی ہے۔ 40,000 کروڑ روپئے کا تخمینی فائدہ یقینی نہیں ، اور ویسے بھی اتنا معمولی ہے کہ کوئی اثر ڈال سکے۔ نہ ہی کوئی ترغیب ہے جو خانگی سرمایہ کو بڑھاوا دے گی۔ ڈی ڈی ٹی کی برخاستگی نے بس ٹیکس کا بوجھ کمپنی سے ہٹاکر شیئرہولڈرس کو منتقل کردیا ہے۔ علاوہ ازیں، جب مینوفیکچرنگ میں استفادہ کی اہلیت تقریباً 70 فیصد ہو (تھرمل پاور جنریشن تنصیب پر مجموعی اہلیت کا تقریباً 55 فیصد ہے) تو نئی سرمایہ کاری کیلئے کم گنجائش رہ جاتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ وزیر فینانس نے طلب کی کمی اور سرمایہ کی قلت سے دوچار معیشت کی ضرورتوں سے نہیں نمٹا ہے۔ نہ ہی انھوں نے برآمدات کو فروغ دینے کے ہمہ رخی اثر کو تسلیم کیا ہے۔ انھیں بس ایک انجن ’’حکومتی مصارف‘‘ پر انحصار کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن وہ انجن میں بھی فیول کی کمی ہے اور مالیاتی عدم استحکام کا سایہ حکومت پر منڈلا رہا ہے۔ وزیر فینانس نے دو نہایت اہم مسائل کو بھی نظرانداز کیا ہے… بے روزگاری میں اضافہ اور ایم ایس ایم ایز کا زوال۔ حالیہ برسوں میں معیشت کو درپیش نہایت سخت چیلنجوں سے دوچار حکومت جو طاقتور اور فیصلہ کن حکومت ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، احمق اور بزدل ثابت ہوئی ہے۔