ادبی تحریکوں سے اردو اکیڈیمی کا قیام و اردو کا فروغ

   

بیسویں صدی میں اردو ادب کا جائزہ پر مذاکرہ، حمیدالظفر و دیگر کا خطاب

حیدرآباد ۔ 23 فبروری (پریس نوٹ) ادبی تحریکیں و رجحانات فکری صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اردو کی ادبی تحریکات میں ترقی پسند تحریک کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ ترقی پسند تحریک کا تعلق راست روس سے تھا جبکہ جدیدیت تحریک بھی کم و بیش ترقی پسند تحریک جیسی ہی رہی مگر اس میں جنسی تلذذ، ذہنی عیاشی کو زیادہ فروغ ملا۔ حیدرآباد کے حوالہ سے اگر مختلف تحریکوں کا جائزہ لیں تو اس میں مخدوم محی الدین، ڈاکٹر چناریڈی اور راج بہادر گوڑ کی جانب سے چلائی گئی مختلف تحریکات کافی اہم رہیں۔ ان خیالات کا اظہار بیسویں صدی میں اردو ادب کا جائزہ عنوان کے تحت بزم فروغ اردو بزم علم و ادب کے اشتراک سے مسدوسی ہال مغلپورہ مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی حمیدالظفر نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان ادبی تحریکات کی وجہ سے اردو اکیڈیمی کا قیام عمل میں آیا اور اردو کو فروغ حاصل ہوا۔ جدیدیت تحریک سے وابستہ شعراء میں حسن فرخ، رؤف خیر، غیاث متین اہمیت کے حامل تھے جبکہ افسانہ نگاروں میں واجدہ تبسم، پروفیسر بیگ احساس، رضاالجبار، احمد ہمیش اور یٰسین احمد قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر نادرالمسدوسی نے سب رس رسالہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حمیدالظفر پانچ سال کی عمر سے ڈاکٹر زور کے قریب رہے ہیں۔ انہوں نے ادبی شخصیات سے لفظ ’’میں‘‘ سے دور رہنے کی درخواست کی۔ صدارتی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر م ق سلیم نے کہا کہ آج کا تمام ادب بیسویں صدی پر منحصر ہے اور اسی کو سامنے رکھ کر لکھا جارہا ہے۔ شبلی نعمانی نے شعرالعجم لکھ کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ بیسویں صدی میں خاتون افسانہ نگاروں نے کافی نام کمایا جن میں عصمت چغتائی، جیلانی بانو، رشید جہاں شامل ہیں۔ ان خاتون افسانہ نگاروں نے نہ صرف اپنے فن کا لوہا منوایا بلکہ اردو ادب کو معرکۃ الاراء ناولیں بھی دیں۔ صاحبزادہ مجتبیٰ فہیم نے کہا کہ ہم کو دوبارہ ایک تحریک کی ضرورت ہے جس سے نوجوان ادب کی طرف دوبارہ راغب ہوجائیں۔ ڈاکٹر ناظم علی، محمد آصف علی اور ڈاکٹر جہانگیر احساس نے بھی خطاب کیا۔ میر وقارالدین علی خان نے کہا کہ پہلے کے افسانوں میں ایک سبق ہوتا تھا اور حقیقت بیانی ہوتی تھی خاص کر منشی پریم چند کے افسانوں سے لوگوں کو تحریک ملی۔ محسن خان نے کہا کہ اکیسویں صدی لٹریچر کی صدی ہے اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے تخلیقات کو دنیا بھر میں پہنچانے میں آسانی ہوگئی ہے۔ مذاکرہ کا آغاز قرأت کلام پاک سے ہوا۔ مختلف کالجس کے طلبہ محمد محمود، اکمل علی سلمان، مرزا سلمان بیگ اور فراست علی موجود تھے۔ مذاکرہ کے بعد افتخار عابد کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ نظامت کی کارروائی ڈاکٹر سلیم عابدی نے انجام دی۔