ارض مقدس پر فلسطینیوں کا حق

   

شیخ محی الدین
بلا مبالغہ اسرائیل کو اس کرہ ارض کی ناجائز مملکت کہا جاسکتا ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح عالم اسلام کو پریشان کرنے کے لئے مسلم دشمن طاقتوں نے در در بھٹکنے والے یہودیوں کو مکاری سے ارض مقدس فلسطین میں بسایا اور پھر ان کے لئے اسرائیل کی تخلیق کی۔ اس معاملہ میں برطانیہ کا کردار انتہائی مجرمانہ رہا، بعد میں امریکہ نے بدقماش اسرائیل کی ہر طرح سے سرپرستی کی لیکن یہودیوں میں کچھ ایسے یہودی بھی ہیں جو ارض مقدس فلسطین پر اسرائیل کے قبضہ کو پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا ہے ان تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائے اور فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس کردے۔
قدامت پسند یہودیوں کی ایک بہت بڑی تنظیم نیٹوری کارتا انٹرنیشنل ہے۔ اس کے ایک یہودی عالم ڈیویڈ ویز ہیں۔ ربی ڈیویڈ ویز این کے آئی کے ترجمان بھی ہیں اور تمام مقبوضہ علاقے فلسطینیوں کو واپس کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ صیہونی مخالف یہودی عالم ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مہر نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ارض مقدس فلسطین پر اسرائیل اور اس کی حکومت فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے قائم کی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینی عوام پر جبر و استبداد کیا اور ان کے انسانی حقوق کو پامال کیا۔ حالانکہ اس طرح کے جرائم یہودیوں کے مذہبی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ربی ویز مزید کہتے ہیں کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی زمینات اور علاقہ بنا کسی شرط کے واپس کردینے چاہئے۔ اس یہودی ربی کا انٹرویو یوم نقبہ کے موقع پر لیا گیا۔ یہ وہی دن ہے جب 1948 میں لاکھوں فلسطینیوں کو ارض مقدس سے نکال باہر کیا گیا تھا اور اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ نتیجہ میں لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو اردن، لبنان، شام اور مغربی کنارہ کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی میں پناہ لینی پڑی۔ یہ تمام فلسطینی پناہ گزینوں کو مذکورہ ممالک کی شہریت حاصل نہیں ہے۔ عالم اسلام اس دن کو یوم القدس کے طور پر بھی مناتا ہے۔
ربی ڈیویڈ ویز نے مزید بتایا کہ دونوں مملکتوں کا مستقبل مکمل طور پر خطرات سے پر ہے۔ ہم ایک جمہوری مملکت کی کوششوں کو دیکھ رہے ہیں جہاں یہودی بہت جلد ایک اقلیت میں ہوں گے۔ اسرائیلی یہ اچھی طرح جانتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی پارٹی اسرائیل کو یہودیوں کا ملک قرار دینے کے لئے قوانین منظور کررہی ہے۔ یقینا یہ مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ نیتن یاہو یہودیت یا یہودی عوام کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کرسکتے چاہے وہ اسرائیل میں مقیم ہوں یا نہ ہوں۔ ربی ڈیویڈ ویز سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے ہتھیاروں کے ذریعہ (دفاعی) اور مالی مدد سے متعلق دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر آپ صیہونی حکومت کے قیام اور حقیقت میں اس کی تبدیلی میں واشنگٹن اور لندن کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اس سوال پر کہ اسرائیلی حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے فلسطینیوں اور لبنانی باشندوں کی تحریک مزاحمت کو کچلنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ آیا اس معاملہ میں صیہونی کامیاب ہوئے ہیں اور کیا یہ کوششیں تل ابیب کی بقاء میں معاون ثابت ہوگی۔ یہودی ربی نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے صیہونیوں کو فوجی اعتبار سے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ ایسے میں کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ اسرائیل نے اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لئے جو کارووائیاں کی ہیں اس میں زبردست جانی و مالی نقصان ہوا ہے لیکن اسرائیلی حکومت اپنے لاکھ مظالم کے باوجود فلسطینی عوام کی آزادی کو روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ کبھی بھی اسرائیل کو فلسطینی زمین پر قبضہ کرنے میں حقیقی کامیابی نہیں ملے گی۔ اسرائیلی حکومت کو اللہ عزوجل کے خلاف بغاوت میں کبھی بھی کامیابی نہیں ملے گی۔
فلسطینی عوام کی حالیہ تاریخ کو دیکھتے ہیں اگرچہ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کی حیثیت سے دوسرے ملکوں میں زندگی گذاررہے ہیں لیکن ان لوگوں نے دنیا کے کسی بھی حصہ میں آرام دہ زندگی گذارنے سے انکار کردیا۔ ایک مذہبی یہودی کے نقطہ نظر سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اللہ رب العزت کی مصلحت دیکھ رہا ہوں، فلسطین، اسرائیل کے خلاف جس ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں ان کے عزم و حوصلوں اور جذبہ سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ اللہ عزوجل صیہونیوں کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ تورات میں اللہ عزوجل نے اپنے اسی حکم میں جس کا میں نے سوال نمبر دو کے جواب میں حوالہ دیا واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اپنے (اللہ) کے خلاف بغاوت کو کبھی کامیاب ہونے نہیں دے گا۔ ربی ڈیوڈ ویز امریکہ کی جانب سے 2017 میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم القدس منتقل کرنے کے اقدام سے متعلق سوال پر کہا کہ وہ ایک المناک قدم تھا ۔ اس سے صیہونی حکومت میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ علاقوں کو اپنے حدود میں شامل کرسکتا ہے اور اس کے لئے امریکہ جیسے ریر اسٹامپ کی منظوری بھی حاصل کرلے گا لیکن کئی امریکی اس معاملہ میں اپنی حکومت کے حامی نہیں ہیں۔ اگر امریکی اس ناانصافی کے خلاف عملاً اٹھ کھڑے ہوں تو یہ امریکی حکومت کے لئے مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔