اسرائیل پر حماس کا حملہ / از قلم: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

,

   

56/سال پہلے عالم اسلام پر ایک ایسی کاری ضرب لگی جس کا درد ہر باشعور مسلمان کو تڑپاتا ہے اور جس کی ٹیس ہر صاحب ایمان اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے ، یہ زخم تھا 7؍ جون 1967ء کو مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس پر اسرائیل کے قبضہ کا ، افسوس کہ عام مسلمان یہاں تک کہ مسلم ممالک بھی اس ناقابل فراموش واقعہ کو فراموش کرتے جارہے ہیں ، کسی قوم کے لئے سب سے بڑی محرومی کی بات یہ ہے کہ وہ لٹ جائے اور اسے لٹنے کا احساس نہ ہو ، وہ اپنے سرمایۂ غم سے بھی محروم ہو جائے اور محرومی کا احساس بھی اس کے دل و دماغ سے رخصت ہو جائے ، علامہ اقبال ؒنے خوب کہا ہے : 

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا 

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا 

بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے ، جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے ، یہیں معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو عالم بالا کا سفر کرایا گیا ، پیغمبر اسلام ﷺ نے نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی ، اس لئے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، بعض روایتوں سے معلوم ہوا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی ، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام اور کتنے ہی انبیاء کرام کی حیاتِ طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے ، شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں ، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں ، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اوراس مسجد کی خاص اہمیت ہے ۔

ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے ، یہاں آؤ اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے ، ان صحابیؓ نے استفسار کیا کہ اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو جو وہاں چراغ میں کام آئے ، (ابن ماجہ ، حدیث نمبر : 1045) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب حضرت سلیمان علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے دُعاء فرمائی ، اس میں ایک دُعاء ایسی حکومت کی تھی جو آپ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دُعاء یہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لئے آئے تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین دُعاؤں میں سے دو تو مقبول ہو گئی اور مجھے اُمید ہے کہ یہ تیسری دُعاء جو مغفرت سے متعلق تھی ، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی ، ( ابن ماجہ ، حدیث نمبر : 1406) اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کے لئے سفر کرنا درست ہے ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ، ( ابن ماجہ ،حدیث نمبر : 1408 – 1407) اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے ۔

 اسلام سے پہلے یہ شہر بار بار تخت و تاراج کیا گیا ، خاص کر چھٹی صدی قبل مسیح ، بابل کے حکمراں بخت نصر نے اس شہر اور اس کے مقدس مقامات کی جس طرح اینٹ سے اینٹ بجائی اور ایک لاکھ یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا ، وہ تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے ، یہودی جو اپنے آپ کو اس شہر کا اصل وارث سمجھتے ہیں ، صرف تہتر 73 سال ہی اس شہر پر برسر اقتدار رہے ، حضرت عمرؓ کے عہد میں 636ء میں بیت المقدس کا علاقہ حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فتح کیا ، مسلمان چاہتے تھے کہ شہر میں خون ریزی نہ ہو اور صلح کی صورت نکل آئے ، عیسائیوں نے یہ شرط لگائی کہ خلیفۃ المسلمین خود آکر دستاویز پر دستخط کریں ، حضرت عمر ؓ نے اسے قبول فرمالیا اور مدینہ میں حضرت علی ؓ کو اپنا قائم مقام بنا کر رجب 16ء میں بیت المقدس تشریف لائے ، بیت المقدس سے پہلے ہی جابیہ نامی مقام پر اسلامی لشکر نے حضرت عمرؓ کا استقبال کیا ، وہیں عیسائی رہنما بھی آگئے اور معاہدۂ صلح کی تحریر عمل میں آئی ، اس معاہدہ کے تحت عیسائی باشندوں کی جان ومال ، مذہبی مقامات ، حضرت مسیح کی مورتیوں وغیرہ کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ؛ بلکہ عیسائی یہودیوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے ، حضرت عمرؓ نے ان کی اس خواہش کو بھی قبول فرمایا اور یہودیوں کی الگ آبادی بنائی گئی ۔ 

اس کے بعد سے یہاں برابر مسلمان حکمراں رہے یہاں تک کہ گیارہویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگیں شروع ہوئیں اور 23؍ شعبان 492ھ کو عیسائی دوبارہ فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوئے ، انھوں نے شہر میں ایسا قتل عام مچایا کہ بچے ، بوڑھے ، جوان اور مرد و عورت کو بلاامتیاز تہہ تیغ کیا گیا ، شہر میں لاشوں کے انبار لگ گئے ! خود مغرب مورخین نے اس خوں آشامی کا اعتراف کیا ہے ، کہا جاتا ہے کہ صرف ایک دن میں شہر اور اس کے مضافات میں ستر ہزار افراد شہید کئے گئے ، یہ سفا کانہ رویہ ٹھیک اس کے برعکس تھا ، جو حضرت عمرؓ اور مسلمان فاتحین نے عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا تھا ، سقوط بیت المقدس کے اس واقعہ نے پورے عالم اسلام کو بے چین اور بے سکون کر کے رکھ دیا ، یہاں تک کہ 1169ء میں سلطان نورالدین زنگی جیسے خدا ترس بادشاہ کے ایک کمانڈر مجاہد اسلام سلطان صلاح الدین ایوبیؒ مصر کے تخت اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے اور شام کے علاقے فتح کرتے ہوئے 1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا ، صلاح الدین ایوبیؒ نے احسان فراموش عیسائیوں کے ساتھ ایسی رحم دلی کا سلوک کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال کم ملے گی ؛ چنانچہ خود عیسائی دنیا (جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا تھی) پر اس کا گہرا اثر پڑا ، آخر اکانوے 91 سال کے بعد قبۃ الصخرہ پر لگائی گئی سنہری صلیب اُتاری گئی اور اس کی جگہ ’’ ہلال ‘‘ نصب کیا گیا ، جب ہی سے ہلال مسلم ملکوں کا شعار سمجھا جانے لگا ، یہ اکیانوے 91 سال کا عرصہ مسلمانوں کے لئے ایسا تکلیف دہ اور غم انگیز عرصہ تھا ، کہ پورے عالم اسلام کی آنکھیں بے سکون اور دل بے قرار تھے ۔ 

ٍٍ خلافت عثمانیہ ترکیہ کے دور میں ہی یہودیوں نے سازشیں بننی شروع کردی تھیں ؛ لیکن خلیفہ نے کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں دی، بالآخر مغربی سازشوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا اور 1948ء میں عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا ، یہ زخم بڑھتا رہا ، یہاں تک کہ 1967ء میں مسلمانوں کا قبلہ اول ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا ، میرے خیال میں پہلی صلیبی جنگ کی شکست اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ سب سے بڑا حادثہ اور سب سے اندوہ ناک سانحہ تھا کہ اگر اس واقعہ پر آسمان خون کے آنسو بہاتا اور زمین کا سینہ شق ہوجاتا تو بھی باعث تعجب نہ تھا ؛ لیکن آہ ! ہم مسلمانوں کی بے حسی اور بے شعوری کہ ہماری نسلوں نے تو اس واقعہ کو بھی اپنے صفحہ دل سے مٹا دیا ہے اور مسلمان حکمراں اسرائیل سے ایسا کٹا کاٹا اور عاجز و مجبور فلسطین مانگ رہے ہیں کہ شاید کوئی فقیر بھی ایسی الحاح و لجاجت سے دست سوال دراز نہ کرتا ہوگا اور کیوں نہ ہو کہ ’’ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ ِمفاجات ‘‘ !

 فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کیلئے ناموس ووقار کا مسئلہ ہے، یہودیوں کا ایک گروہ صہیونی ہے جو قوم یہود پر اسی طرح غالب ہے ،جیسے ہندوؤں پر سنگھ پریوار، صہیون(Zoin)بیت المقدس کے قدیم شہر کی ایک پہاڑی ہے، یہودیوں کا خیال ہے کہ اس پہاڑی پر حضرت داؤد علیہ السلام نے یہودیوں کیلئے ایک عبادت گاہ بنائی تھی ،اس لیے اس پہاڑی سے منسوب کرکے یہودیوں نے 1897ء میں ایک خفیہ تحریک شروع کی اوراس کیلئے ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل نے ’’یہودی مملکت‘‘کے نام سے اپنی کتاب طبع کی اورایک وسیع اسرائیل کا تصور پیش کیا جس میں نہ صرف فلسطین ؛بلکہ مصر ، اردن، مصرکا صحرائے سینا، شام، لبنان، عراق، دریائے نیل ،مدینہ منورہ اوراس سے شمال میں بنوقریظہ ، بنونضیر اور خیبرتک کا علاقہ شامل ہے، یہودیوں کا یہ گھناؤنا خواب برطانیہ کی استعماری حکومت کے ذریعہ شرمندۂ تعبیر ہوا، جب برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے فلسطین کی قابض ریاست ہونے کی حیثیت سے اسرائیل کے قیام کی حمایت کی۔

 عرب حکمرانوں کی بزدلی اور نفاق کی وجہ سے جب فلسطین کا مسئلہ سرد خانہ میں چلاگیا اور پڑوس کی مسلم اور عرب حکومتوں نے فلسطین کا سودا کرنا شروع کردیا تواس کیلئے فلسطینیوں کے اندر ایک مزاحمتی تحریک برپا ہوئی، جس کو حماس کہتے ہیں ،شیخ احمد یاسین شہید نے 1987ء میں اس کی بنیاد رکھی، ان کی شہادت کے بعد بھی یہ تنظیم پوری قوت کے ساتھ سرگرم عمل رہی، اس نے اردن کو اپنی پناہ گاہ بنایا اور فلسطینیوں کیلئے رفاہی کاموں کی کوششوں سے آغاز کیا ،اردن کے بادشاہ شاہ حسین نے بادل نخواستہ اس کو برداشت کیا؛ لیکن جب ان کے بیٹے شاہ عبداللہ دوم اقتدار پر آئے تو وہ بھلا اس کو کیسے برداشت کرتے؛ کیونکہ اردن کے اس سید زادہ حکمراں کو اپنے لیے کوئی مسلمان لڑکی نہیں مل پائی، اوراس نے ایک انگریز عورت سے شادی کی، چنانچہ عبداللہ دوم نے حماس کا ہیڈ آفس بند کرادیا اور اس کے بڑے بڑے رہنما قطر کی طرف جلا وطن کردیے گئے۔ (جاری)