اسلام کا نظام معیشت اور اُس کے اخلاقی اقدار

   

مہذب معاشروں میں افراد اور اجتماع کے درمیان ہم آہنگی کے لئے لازم ہے کہ ہر فرد ان اقدار کی پابندی کرے جنہیں اس معاشرے میں قابل تحسین سمجھا جاتا ہے اور ایسے طرز عمل سے گریز کرے جسے ناپسند کیا جاتا ہے ، چنانچہ ہم جو طرزعمل اختیار کرتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ معاشرے میں اسے پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور جن کاموں سے ہم احتراز کرتے ہیں ان کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ہماری مسلمہ اقدار کی روشنی میں گرچہ قانون کی زد میں نہ بھی آتے ہوں بہرحال لائق نفرت تصور کئے جاتے ہیں اور معاشرہ کا اجتماعی ضمیر ان کے طرزعمل پر احتجاج کرتا ہے ۔
معاشیات میں بنیادی طورپر تین اہم پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے (۱)دولت کی پیدائش یا تحصیل (۲) دولت کا مصرف (۳) دولت کی تقسیم ۔
معیشت کے ان تینوں عناصر میں غور و فکر کرنے سے قبل اسلام میں اس کے متعلقہ اخلاقی اقدار پر غور کرنا ضروری ہے ۔ جب تک اسلام کے معاشیات اور اس کے اخلاقی اقدار کا ادراک نہ ہو اسلام کے نظام معیشت کا حقیقی ادراک مشکل ہے اور اسلام کے یہی اخلاقی اقدار اسلام کے نظام معیشت کو مغرب کے نظام معیشت سے جدا کرتے ہیں۔
اسلام میں معیشت کے کچھ اقدار مثبت اور قابل تحسین سمجھے جاتے ہیں جبکہ بعض اقدار منفی اور بری نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔ اس مختصر مضمون میں اُن کااحاطہ کرنا دشوار ہے تاہم چند اقدار کاذکر کیا جاتا ہے جس سے اسلام کے نظام معیشت کو سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے ۔

۱۔ میانہ روی : زندگی کے جملہ اُمور میں اسلام نے میانہ روی اور اعتدال کو پسند کیاہے ۔ معاشی معاملات میں بھی یہ میانہ روی بہت واضح طورپر نظر آتی ہے ۔ دولت کی تحصیل اور پیدائش ، دولت کے مصارف اور دولت کی تقسیم کے جملہ اُمور میں افراد اور سماج کیلئے درمیانی راہ کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے مثال کے طورپر نہ تو یہ بات پسندیدہ ہے کہ آدمی دن رات صرف معاش کی فکر ہی میں اُلجھا رہے ۔ (سورۃ التکاثر : ۱۔۲) اور نہ یہ کہ کوئی کام نہ کرے اور نکما بیٹھا رہے ۔ (سورۃ التحدید ؍ ۲۷) اسی طرح نہ تو یہ مطلوب ہے کہ آدمی اپنی ساری دولت اپنی ذات پر اُڑا دے (سورۃ الاعراف ؍۳۱) اور نہ یہ کہ اُتنا بخیل ہوکہ اپنے آپ کو بھی اس سے محروم رکھے (سورۃ اللیل ؍۸) پھر نہ تو یہ پسندیدہ ہے کہ لوگ دولت کے پجاری بن جائیں اور نہ یہ کہ ’’رھبانیت‘‘ اختیار کرلیں۔ غرض کہ اسلام کے جس معاشی اُصول کو بھی دیکھیں اس کے پیچھے ’’اقتصاد‘‘ یعنی میانہ روی کی روح کارفرما نظر آتی ہے ۔ شریعت میں ’’انفاق‘‘ (خرچ کرنے) کی بڑی فضیلت و تاکید ہے اس سے مراد اپنی جان ، اپنے اہل و عیال ، عزیز و اقارب ، معاشرے کے مستحق لوگوں اور اجتماعی مفاد کے کاموں پر حلال مال میں سے رضاکارانہ طورپر اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرنا ہے اور اس میں بھی میانہ روی کو پسند کیا گیا ہے ۔ خرچ کرنے میں بخالت اور اسراف دونوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
۲۔ ضابطۂ حلال و حرام : اسلام کی معاشی حکمت میں ضابطۂ حلال و حرام کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے ، کسی دوسرے معاشی نظام میں اس طرح، کا ضابطۂ حلال اور حرام موجود نہیں۔ ایک طرح سے اسلامی ریاست میں تمام سرمایہ کاری کا بنیادی معیار حلال اور حرام کی تمیز پر ہے ۔ سرمایہ کاری کے وقت سب سے پہلے یہ دیکھا جائیگا کہ شریعت کی نگاہ میں یہ کاروبار حرام تو نہیں ہے ۔ معاشرے میں جو لوگ جائز اور حلال پیشوں میں مشغول ہیں ان کو عزت و اکرام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کے برعکس حرام ذرائع سے روزی کمانے والے قابل نفرت ہوتے ہیں۔ مخفی مباد کہ کسب حلال اسلامی معاشرہ کی ایک قدر ہے ، تاہم اس میں بھی اقتصاد یعنی میانہ روی کی روح کو برقرار رکھنا لازم ہے چنانچہ شریعت میں یہ مطلوب نہیں کہ انسان کسب حلال میں اس درجے منہمک ہوجائے کہ اﷲ کی یاد سے غافل ہوجائے ۔ (سورۃ المنافقون؍۹)
۳۔ امانت : معاملات میں امانت و دیانت ایک آفاقی قدر ہے۔ اسلامی شریعت نے بھی اس کی تاکید کی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو واپس پہنچادو (سورۃ النساء ؍۵۸) قرآن مجید میں جابجا امانت کی صفت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی متعدد احادیث میں تجارت اور لین دین کے جملہ اُمور میں امانت کی تحسین فرمائی اور خیانت سے منع فرمایا۔ حتیٰ کہ یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی تم سے خیانت کرے توتم اُس سے خیانت نہ کرو ۔ ( مسند احمد :۴۱۴) خائن اور بددیانت کے لئے وعید سنائی کہ جو شخص کسی کو دھوکا دے وہ اُمت مسلمہ کافرد متصور نہیں کیا جائیگا ۔ (مسلم ، کتاب الایمان)

۴۔۵۔ عدل و احسان : اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد لوگوں کے باہمی تعلقات میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے ۔ عدل ایک بہت وسیع المعنی اصطلاح ہے ۔ اسلامی معاشیات کے نقطہ نظر سے عدل سے مراد لوگوں کے باہمی تعلقات ان بنیادوں پر قائم کرنا ہے جس سے ہر فرد کو اس کا جائز حق مل جائے اور ’’جائز حق ‘‘ کو شریعت نے ہر معاملے میں صریح قانون یا قانونی نظائر کی شکل میں مدون کیا ہے ۔
شریعت میں جہاں عدل کا قیام بنیادی مقاصد میں شامل ہے وہاں معاشرے میں خوش آہنگی اور حسن پیدا کرنے کے لئے آپس کے معاملات میں احسان کا رویہ اختیار کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے ۔
احسان کی ایک موزوں اور سہل تعریف یوں ہوسکتی ہے کہ باہمی معاملات میں دیتے وقت دوسروں کے حق سے زائد دینے کی سعی کرنا اور لیتے وقت اپنے حق میں کچھ کمی بیشی پر راضی ہوجانے کا نام احسان ہے ۔
۶۔ تعاون : قرآن مجید میں ہے کہ تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اس عالمگیر یاخوت کی بنیاد پر حضور ﷺ نے بہت سی ہدایات دیں جن سے ایک دوسرے سے خیرخواہی ، تعاون ، غمگساری اور ہمدردی کی فضاء ہموار ہوتی ہے ۔ چنانچہ اسلام میں تمام معاملات کی بنیاد باہمی تعاون قرار پاتی ہے نہ کہ مسابقت ۔ اس وجہ سے ایک شخص کے سودے پر دوسرے کے سودا کرنے سے منع کیا گیا ۔ کاروبار میں وہ شکلیں جائز رکھی گئیں جن میں فریقین کا فائدہ ہو ۔ ایسا کاروبار حرام قرار دیا گیا جس میں ایک فریق کا یقینی نقصان ہو ۔ بناء بریں اہل ایمان کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ تنگدستی میں بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ لہذا تعاون کی اصل یہی ایثار ہے ۔ یہ بات مغربی معاشرے میں واضح طورپر مختلف ہے کہ جہاں باہمی معاملات مسابقت پر ہوتے ہیں اور یہی خود غرضی کی اصل روح ہے ۔

۷، ۸ ، ۹ ، ۱۰: اسلام کے معاشی اقدار میں صبر ، شکر ، توکل اور قناعت کو بڑی اہمیت ہے ۔ یہ چاروں اقدار ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں ۔ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ معاشی تنگدستی کے زمانے میں حلال ذرائع پر قناعت کرنا اور کسی قیمت پر حرام کی طرف رجوع نہ کرنا صبر کہلاتا ہے ۔ شکر سے مراد یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ مادی مال و اسباب میسر ہیں اسے اﷲ تعالیٰ کی نعمت متصور کریں اور اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا احسان مند رہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر ایسا تصرف جو شریعت کے منشا کے خلاف ہو ،ناشکری متصور ہوگا ۔ توکل سے مراد تمام مادی اسباب کے فراہم کرچکنے کے بعد نتائج کیلئے اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے ۔ مستشرقین نے معاشی میدان میں مسلمانوں کے اصل زوال کی وجہ توکل کو قرار دیا یعنی وہ کہتے ہیں کہ مسلمان توکل کے باعث کم ہمتی اور تقدیر پرستی کے شکار ہوجاتے ہیں اور جدوجہد ترک کردیتے ہیں جبکہ توکل اہل اسلام کو مہم جوئی کا درس دیتا ہے ۔ نہ کہ تقدیر پرستی کا ۔ مسلمان تمام ممکن ذرائع سے کام لیتا ہے۔ جدوجہد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دنیاوی یا ظاہری کسی رکاوٹ کو حائل بننے نہیں دیتا ۔ یہ توکل سے مراد ہے ۔ اخیر میں قناعت اسلامی معاشرہ کی اہم قدر ہے اس سے مراد حلال ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق پر اکتفاء کرنا ہے ۔ یہ صبر سے ملتی جلتی قدر ہے کہ آدمی کے لئے لازم ہے کہ وہ حلال ذرائع سے ہرممکن کوشش کرے پھر جو رزق اسے ملے اس پر قناعت کرے یقین رکھے کہ حرام ذرائع سے وہ مقررہ رزق سے زیادہ حاصل نہ کرسکے گا یہی قناعت ہے ۔ مندرجہ بالا مثبت اقدار نہ صرف دولت کی تحصیل و پیدائش بلکہ دولت کے مصرف اور تبادلۂ دولت کے سلسلے میں شریعت کی طرف سے لگائی گئی حدود کی پابندی کرنا اﷲ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان عزت و اکرام کا باعث ہے ۔