اسمبلی انتخابات پر شبہات ؟

   

محیط ہوں میں تیری سوچ کی فصیلوں پر
جو فتح کرنا ہو اس کو تو پہلے مار مجھے
ملک کی پانچ ریاستوں میں آئندہ دو تا تین مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ان میں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ اور میزورم شامل ہیں۔ یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اگر واقعتا ایسا ہوتا ہے تو پھر اس کے اثرات آئندہ پارلیمانی انتخابات پر بھی مرتب ہونے لازمی ہیں۔ اسی صورتحال میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی حالات کو اپنے حق میں سازگار بنانے کی کوششوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ خاص طور پر پارلیمانی انتخابات کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تشکیل دئے گئے انڈیا اتحاد نے بھی حکومت اور بی جے پی کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ایسے میں جس دن ممبئی میں انڈیا اتحاد کا اجلاس ہونا تھا اسی دن مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے پانچ روزہ خصوصی سشن کا اعلان کردیا ۔ اسی وقت سے ایک ملک ۔ ایک الیکشن کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں تیاریاں بھی شروع کرچکی ہے اور پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میںاس تعلق سے ہی پیشرفت کے اقدامات کئے جائیں گے ۔ ایسے میں کچھ گوشوں نے یہ شبہات ظاہر کئے ہیں کہ بی جے پی ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کو تین تا چار ماہ کیلئے ٹال سکتی ہے اور پھر پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ان کا انعقاد عمل میں لایا جاسکتا ہے ۔ مختلف گوشوں سے ان شبہات کے اظہار کے دوران تلنگانہ کے وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ نے بھی آج اسی طرح کے اندیشوں کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت اسمبلی انتخابات کو مارچ تک ملتوی کرنے کے تعلق سے فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اگر 10 اکٹوبر تک اسمبلی انتخابات کا اعلامیہ جاری نہیں ہوتا پھر ان کو تین تا چار ماہ تک ملتوی کرنے کے اندیشے درست ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک ذمہ دار وزیر کا بیان ہے جسے دوسرے گوشوں کی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس تعلق سے تمام جماعتوں کو فوری حرکت میں آنے اور صورتحال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی حکومت کو اس کے منصوبوں کو پورا کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔
جس وقت سے بی جے پی کی عوامی مقبولیت میں کمی کا اعتراف ہونے لگا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف بھی گھٹتا جا رہا ہے بی جے پی کے حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی ہے ۔ انتخابات تو ویسے بھی شکست و کامیابی کا ہی نام ہے ۔ کوئی کامیاب ہوتا ہے تو کوئی ناکام بھی ہوتا ہے ۔ یہ جمہوری عمل ہے ۔ اس کے مطابق تمام جماعتوں کو تیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس طرح سے بی جے پی نے اچانک ہی ایک ملک ۔ ایک انتخاب کی تجویز عوام کے درمیان لائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے ارادے مثبت نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ تجویز بہت پہلے سے زیر غور رہی ہے اور کچھ گوشوں کی جانب سے اس کی وکالت کی جا تی رہی ہے تاہم جس طرح سے بی جے پی اس سے فائدہ اٹھانے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منصوبے تیار کرنے چاہئیں۔ بی جے پی کو صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینے کی بجائے ہر جماعت کو کسی بھی طرح کی صورتحال کیلئے تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ملک ۔ ایک انتخاب کی تجویز کے ذریعہ اقتدار کو غلط طریقے سے حاصل کرنے کی کوششوں کو روکنے کیلئے تمام جماعتوں کو متحد ہوجانے کی ضرورت ہے ۔ ویسے بھی کئی جماعتیں ہیں جو انڈیا اتحاد میں شامل ہوگئی ہیں تاہم مزید دوسری جماعتوں کو بھی اس صورتحال کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا ۔
ہر پانچ سال میں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات لازمی طور پر کروائے جانے چاہئیں ۔ یہی جمہوریت ہے اور اسی کے ذریعہ عوام اپنی پسند کی حکومت اور اپنی پسند کے ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی کی معیاد جاریہ سال ڈسمبر میں پوری ہونے والی ہے ۔ ایسے میں اگر ان انتخابات کو ملتوی کیا جاتا ہے تو پھر صدر راج کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگی اورا س کے ذریعہ مرکزی حکومت اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی کوشش کرسکتی ہے ۔ جہاں تک ایک ملک ۔ ایک الیکشن کا مسئلہ ہے اس پر قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کئے بغیر پیشرفت نہیں کی جاسکتی ۔ وسیع تر مشاورت ضروری ہے ۔