اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے

   

محمد مصطفی علی سروری
سردیوں کے موسم میں صمد بھائی کسی کام سے منچریال گئے تھے تو وہاں پر انہوں نے بیلم پلی کے چوراہے پر رات کے وقت سجے بازار کو دیکھا تو انہیں شہر حیدرآباد کا گمان ہو رہا تھا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ رات کی سردی میں جب وہ کھانا کھانے کے لیے لاج سے باہر نکلے تو وہاں کے ہوٹلوں اور سڑک کے کنارے لگے فوڈ بازار کو دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے پریشان ہوگئے۔ کیا نہیں تھا۔ کہنے کو تو منچریال ایک چھوٹا شہر ہے لیکن کباب سے لے کر بریانی تک، اڈلی دوسہ سے لے کر مرچیوں تک غرض ہر طرح کا وہ کھانا موجود تھا جو بڑے بڑے شہروں میں ہوتا تھا۔ (منچریال شہر حیدرآباد سے تقریباب ڈھائی سو کیلو میٹر دور واقع ایک ضلع ہے۔)شہر واپسی کے بعد صمد بھائی نے اپنے منچریال کے سفر کی کہانی ہمیں بھی سنائی اور کہا کہ ارے بھائی صاحب آپ اپنے کالم میں اس موضوع پر بھی کچھ لکھئے کہ باہر کھانا بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے اب چھوٹے شہروں کی زندگی کا لازمی حصہ بنتا جارہا ہے۔ پہلے لوگ کسی ضروری کام سے گھر سے نکلتے یا گھر سے دور رہتے تھے تو باہر کا کھانا کھانے کے لیے مجبور ہوجاتے تھے اب تو لوگ باہر کا کھانا کھانے کے لیے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ صمد بھائی سے جب ہم نے پوچھا کہ ٹھیک ہے اور کیا خاص بات ہے منچریال کی تو صمد بھائی ناراض ہوکر کہنے لگے آپ کو واٹس اپ پر ایک نیوز کلپ بھیج رہا ہوں آپ ہی پڑھ لیجئے۔
خیر سے قارئین صمد بھائی نے اخبار تلنگانہ ٹوڈے کی 13؍ جنوری کی ایک رپو رٹ ہمیں بھیجی۔ پی سنتوش کی رپورٹ میں منچریال میں فوڈ انڈسٹری کی بدلتی ہوئی صورتحال پر تفصیلات تو درج تھی لیکن ہماری توجہ تلنگانہ ٹوڈے کی رپورٹ کے اس حصہ پر مرکوز ہوگئی جس میں لکھا تھا کہ منچریال کے آئی بی چوک- بیلم پلی کراس روڈ پر ایک Pizza کی دوکان ہے جس کے مالک کا نام پی سھنیدھر ہے۔ قارئین پیزا کی اس دوکان میں کوئی خاص بات نہیں ہے اور نہ ہی دوکان کے مالک کے نام میں خاص بات ہے۔ ہاں اگر کوئی خاص بات ہے تو وہ دوکان کے مالک پی سھنیدھر کی تعلیمی قابلیت کی ہے۔ وہ ایک پروفیشنل آرکٹیکٹ ہے۔

منچریال کے مصروف چوراہے پر Pizza کی دوکان لگاکر کاروبار کرنے والے پی سھنیدھر کے مطابق منچریال میں بھی لوگ شمالی اور جنوبی ہندوستان سے آکر روزگار میں لگے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی کھانے کی عادتیں بھی مختلف ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی معیاری کھانا بناکر دیتا ہے تو لازمی بات ہے لوگ اس کے پاس آئیں گے۔ ایک ایسے پس منظر میں جب بے روزگاری میں اضافہ اور انجینئرنگ گریجویٹس کے لیے گھٹتے ہوئے مواقع عام بات ہیں تعلیم یافتہ نوجوان فوڈ بزنس میں کامیابی کے جھنڈے لہرارہے ہیں۔ ٹی کرانتی نے ایم بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اب وہ سریندھی فوڈ ٹرک پارٹنر شپ میں چلارہا ہے۔ اس نے اخبار تلنگانہ ٹوڈے کو بتلایا کہ ملازمت کا حصول مشکل امر بن گیا ہے اور سرکاری ملازمت کے بارے میں تو سونچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔ ایسے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد سڑک کنارے اپنے فوڈ اسٹال لگاکر منافع کما رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 لاکھ کے بجٹ سے فوڈ ٹرک (گاڑی میں کھانا بناکر بیچنے) کا کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔ منچریال جیسے چھوٹے شہر میں بھی کم سے کم ایک ہزار روپئے سے لے کر یومیہ پانچ ہزار روپئے بھی نوجوان فوڈ اسٹال کے ذریعہ سے کمارہے ہیں۔ نہ صرف اپنے جیب کا خرچ بلکہ گھر والوں کے لیے مالی اعانت کرتے ہوئے زندگی کے حقیقی چیالنجس کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہاں یہ سچ ہے کہ ایک آرکٹیکٹ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ Pizza فروخت کرے اور نہ ہی ایک ایم بی اے پاس طالب علم کو سڑک کے کنارے فو ڈ ٹرک لگاکر کاروبار کرنے کی شرط ہوتی ہے۔لیکن آرکٹیکٹ کا کورس کرنے کے بعد بے روزگاری سے بہتر تو کھانے کی دوکان لگاکر روزانہ کے ہزار روپئے کمانا بہتر ہے۔ اور ایم بی اے کے بعد گھر بیٹھ کر ماں باپ کی روٹیاں توڑنے سے بہتر تو یہ ہے کہ فوڈ ٹرک کے ذریعہ کاروبار کرتے ہوئے روزانہ کے پانچ ہزار روپئے کمائے جائیں۔

قارئین یہاں پر ایک بڑا ہی اہم سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے تو کیا نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم ترک کردینی چاہیے؟ اس سوال کا جواب شائد ہمیں ممبئی کے رہنے والے 13 سال کے تلک مہتا کی زندگی سے مل جائے گا۔ یہ لڑکا ممبئی کے ایک اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے اور اس کم عمری میں ہی وہ ایک کمپنی کا مالک بھی ہے۔ یہ کوئی بچوں کے کھیلنے کی کمپنی نہیں بلکہ کاروباری کمپنی ہے Papers N Parcels نام کی یہ کمپنی ممبئی کے لوگوں کو کوریئر کی خدمات فراہم کرتی ہے اور روزانہ اس کمپنی کو ایک ہزار تا 12 سو کی تعداد میں آرڈرس اوسطاً ملتے ہیں اور ایک آرڈر کی کم سے کم مالیت 40 تا 50 روپئے ہوتی ہے۔ یوں تلک مہتا کو روزانہ چالیس تا پچاس ہزار کے آرڈرس ملتے ہیں۔
قارئین تلک مہتا ایک اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے اور اپنی خود کی کمپنی اس نے کیسے شروع کی۔ اس کے متعلق اخبار انڈین ایکسپریس نے 14؍ جنوری کو ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق ایک مرتبہ امتحانات سے عین قبل وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے گیا تھا جہاں پر وہ اپنی کتابیں بھول کر گھر واپس آگیا اور امتحان کی تیاری کے لیے اس کو پریشانی ہوئی۔ بازار جاکر معلوم کیا تو ممبئی میں کوئی کوریئر کمپنی ایسی نہیں تھی جو اسی دن ڈیلیوری دیتی اور پھر ممبئی میں ہی کتابوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے تلک مہتا کو ساڑھے تین سے چار سو روپئے ادا کرنے پڑ رہے تھے۔ اسکول کے طالب علم کی اسی پریشانی نے اس کو سونچنے پر مجبور کردیا اور پھر تلک مہتا نے ایک Application تیار کرلیا جو ممبئی شہر میں لوگوں کو ان کے Parcel اسی دن پہنچاتا تھا۔ تلک کے والد نے تلک کے Idea کا خیر مقدم کیا اور پھر اس کا مکمل تعاون کیا۔ تلک نے اپنے اسکول کی تعطیلات میں ممبئی کے مشہور زمانہ ڈبہ والوں کے ساتھ گھوم پھر کر معلومات جمع کی اور انہی کے تعاون سے سے انہی کے نیٹ ورک کو کام میں لاکر Paper N Parcel کی سروس شروع کی۔ قارئین تلک مہتا کی اس کمپنی نے اندرون ایک سال 300 ممبئی کے ڈبے والوں (لوگوں کو ان کے ٹفن پہنچانے والوں کو) کو اپنے نیٹ ورک کا حصہ بنالیا۔ خود تلک کی کمپنی میں آج 200 لوگ کام کر رہے ہیں۔ اس موبائل ایپلیکیشن کے ذریعہ اگر کوئی اپنا پارسل ممبئی میں کہیں بھی بھیجنا یا منگوانا چاہتا ہو تو ڈبے والے آکر گھر سے پارسل لیکر جاتے ہیں اور پھر یہ پارسل 6 تا 8 گھنٹوں میں ممبئی کے ہی دیئے گئے کسی بھی پتہ پر پہنچادیا جاتا ہے۔ فی الحال تلک کی کمپنی اپنی کوریئر خدمات صرف ممبئی شہر تک محدود رکھی ہوئی ہے۔

تلک نے ڈبہ والوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے خود بھی مراٹھی سیکھی اور ڈبے والوں کے ساتھ ممبئی میں گھوم پھر کر ان کے کام کاج کو سمجھا اور پھر کمپیوٹر کے ذریعہ اپنا Application تیار کیا۔
قارئین اپنے اس ایک سال کے کامیاب تجارتی سفر کے بعد بھی تلک مہتا نے اپنی پڑھائی نہیں چھوڑی۔ وہ اب بھی ہر روز اپنے اسکول کو جاتا ہے اور اسکول سے واپسی کے بعد اپنے آفس کا رخ کرتا ہے اور دن بھر کے کاروبار کا جائزہ لیتا ہے اور جب اسکول میں کسی دن دیر ہوجاتی ہے تو وہ اپنے گھر سے ہی فون پر اپنے کاروبار کی دیکھ ریکھ کرلیتا ہے۔ خود تلک کے والد نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ تلک کی تعلیم سب سے اہم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بزنس کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی توجہ مرکوز کرے۔
قارئین اگر پیسہ کمانا ہی انسانی زندگی کی مقصد ہوتا تو پھر تلک کے والدین کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ان کا لڑکا 13 سال کی عمر میں ہی کمانے لگا ہے۔ اب اس کو تعلیم کی کیا ضرو رت ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہے۔ تعلیم کا حاصل کرنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری ہے کہ محنت کر کے کمایا جائے۔ دونوں ضروریات ہیں۔ دونوں کی اہمیت ہے۔ یہاں پر میں ایک اور مثال دینا چاہوں گا کہ پیسہ عزت اور شہرت حاصل کرلینے کے بعد بھی لوگ چاہتے ہیں کہ تعلیم حاصل کریں۔ اس کی ایک بہترین مثال 81 سال کے ضعیف نارائن ساہو کی ہے۔ نارائن ساہو کوئی معمولی آدمی نہیں۔ وہ اڑیسہ اسمبلی کے دو مرتبہ ایم ایل اے رہے ہیں اور صرف ایم ایل اے ہی نہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی اپنے حلقہ کی نمائندگی کی اور ایک مرتبہ ایم پی بھی بنے۔ اب عمر کے اس حصے میں نارائن ساہو نے اُتکل یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ نارائن ساہو، سابقہ رکن پارلیمنٹ اب ایک عام پی ایچ ڈی (Ph.D.) اسکالر کی طرح یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک دوسرے طالب علم کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتے ہوئے اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ (اخبار دی ہندو ۔ 8؍ جنوری 2019 کی اشاعت سے ماخوذ)
قارئین آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو نہ صرف حصول تعلیم کے لیے آمادہ کریں بلکہ ایسی تعلیم کی بھی وکالت کریں جو انہیں اپنے پیروں پر خودکھڑا کرسکے۔تعلیم کے میدان میں بدلتے ہوئے چیالنجس کو مدنظر رکھیں اور ان شعبوں کا انتخاب کریں جہاں پر چل کر اگلے آنے والے برسوں میں مواقع کشادہ ہوں۔ ساتھ ہی حصول تعلیم کے بعد اگر روزگار کے مواقع میسر نہ ہوں تو اپنی مدد آپ کریں۔ سرکاری اسکیمات اور پروگراموں سے استفادہ کریں اور بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کچھ نہ کچھ حرکت کریں۔ کیونکہ حرکت میں ہی برکت ہے۔
بقول شاعر ؎
اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے
مجھے یقین ہے کہ کہ یہ آسمان کچھ کم ہے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com