افغانستان سے منسوب کرنا کشمیر پر بلیک میل کرنے کے مترادف ہے۔ عہدیداران

,

   

جب سے حکومت ہند نے جموں اور کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کرتے ہوئے ریاستوں کو 5اگست کے روز دو مرکز کے زیراقتدار علاقوں میں تقسیم کردیا ہے‘

پاکستان باربار عالمی کمیونٹی سے اس مسلئے کو اٹھانے کے لئے رجو ع ہورہا ہے مگر اس کی یہ کوششیں ہر وقت رائیگاں ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔

نئی دہلی۔ پاکستان کی کوشش یہ کشمیرمعاملے کو بین الاقوامی بنانے کی غرض سے امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن کی بات چیت سے جوڑ نا گویا ”بلیک میل“ کرنے کے مترادف ہے‘ چہارشنبہ کے روز اس قسم کے حالات سے واقف کچھ لوگوں نے یہ بات بتائی ہے۔

جب سے حکومت ہند نے جموں اور کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کرتے ہوئے ریاستوں کو 5اگست کے روز دو مرکز کے زیراقتدار علاقوں میں تقسیم کردیا ہے‘ پاکستان باربار عالمی کمیونٹی سے اس مسلئے کو اٹھانے کے لئے رجو ع ہورہا ہے مگر اس کی یہ کوششیں ہر وقت رائیگاں ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔

پاکستانی سفیر برائے امریکہ اسد مجید خان نے اس بات کا اشارہ دیاکہ طالبان کے ساتھ با ت چیت اس وقت متاثر ہوسکتی ہے کہ اگر ان کے ملک افغانستان کی سرحد سے ہٹاکر اپنے فوج کو ہندوستان کی سرحد پر لاکر کھڑا کردے اس لئے پاکستان کی قیادت چاہتی ہے کہ کشمیر معاملے میں امریکہ ثالثی کا رخ اختیار کرے۔

اس بات چیت سے واقف ایک فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کہا ہے کہ ”یہ بلیک میل ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اسی طرح کی چیزیں انہوں نے نیوکلیئر معاملے پر بھی کی تھیں“۔

ہندوستان کی جانب سے یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ پاکستانی قیادت کے کسی بھی اکسانے والے ریمارکس پر ردعمل ظاہر نہیں کیاجائے گا کیونکہ جموں اور کشمیر ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے۔

اس کے علاوہ ہندوستان کی جانب سے یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دئے جارہے اس قسم کے بیانات اہم تنازعات پر عالمی کمیونٹی میں خوف پیدا کرنا ہے۔

عالمی سطح پر کشمیر معاملے میں مداخلت کے متعلق پاکستان کے اقدام پر ترکی جیسے ممالک کو چھوڑ کر کسی نے بھی توجہہ نہیں دی ہے۔

یہاں تک کہ اسلامک کواپریشن کی آرگنائزیشن جیسے یو اے ای نے کشمیرمیں تبدیلی کو ”داخلی معاملہ“ قراردیاہے