اقلیتوں کا وکاس کیوں نہیں؟

   

مرکز میں اقتدار حاصل کرنے سے قبل بی جے پی نے ملک میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا تھا ۔ دوسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے سے قبل بھی اس نعرہ میں کو اور بھی شدت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت ملک میں سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہاں ہے اور اس کیلئے ضروری اور درکار اقدامات کئے جائیں گے ۔ تاہم گذشتہ آٹھ سال سے زائد عرصہ میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجائیگا کہ یہ محض ایک نعرہ ہے اور یہ نعرہ سوائے وہم کے اور کچھ نہیں ہے ۔ اس نعرہ کے ذریعہ صرف گمراہ کن پروپگنڈہ اور تشہیر کیا جا رہا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ دیتے ہوئے ملک میں اقلیتوںکو حاشیہ پر کردینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ جو معمولی سی امداد یا اسکیمات مرکزی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو دی جاتی تھیں بتدریج اور منظم انداز میں انہیں ختم کیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوں کیلئے بجٹ میں محض 3097 کروڑ روپئے فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو صفر کے برابر ہے ۔ ہندوستان میں 20 تا 22 کروڑ کی مسلم آبادی کیلئے محض تین ہزار کروڑ روپئے بجٹ میں فراہم کرنا در اصل اقلیتوں کے وجود سے ہی انکار کرنے کی کوشش ہے ۔ اقلیتوں کیلئے جو اسکیمات مرکز کی جانب سے چلائی جاتی تھیں انہیں بھی بند کردیا گیا ہے ۔ اقلیتی امیدواروں کیلئے یو پی ایس سی کی تیاری کیلئے اسکیم موجود تھے جسے ختم کردیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت نہیں چاہتی کہ اقلیتی نوجوان سیول سروسیس جیسے اہم امتحانات کی تیاری کرتے ہوئے ان میں حصہ لیں۔ پہلے ہی سے کئی گوشوں کی جانب سے اقلیتوں میں یو پی ایس سی کی تیاری اور نشستیں حاصل کرنے پر تنقیدیں کی جا رہی تھیں اور اسے یو پی ایس سی جہاد سے تعبیر کیا گیا تھا ۔ اب مرکزی حکومت نے اس اسکیم کو ختم کرتے ہوئے اسی جذبہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعہ یو پی ایس سی جہاد جیسا فتنہ انگیز نعرہ دیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کیلئے استاد اسکیم کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔ اس اسکیم کے ذریعہ بھی اقلیتوں کیلئے تعلیمی مواقع کو ختم کرنے کی سمت کوشش کی گئی ہے ۔
ملک میں ہر حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے کچھ معمولی ہی صحیح اقدامات کئے گئے تھے اورا س کیلئے کچھ فنڈز وغیرہ بھی فراہم کئے جا رہے تھے ۔ تاہم مرکز کی نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ اقلیتوں کو تعلیم کے میدان میں بھی پیچھے کردینا چاہتی ہے ۔ ویسے بھی اقلیتوں میں تعلیمی ترقی کا تناسب بہت کم ہے ۔ حالیہ عرصہ میں مسلم نوجوانوںمیں تعلیم کی اہمیت واضح ہونے لگی ہے اور وہ مسابقتی امتحانات کی تیاری کر تے ہوئے دیگر ابنائے وطن کے مساوی مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش کو بھی مرکزی حکومت ختم کرنے کی سمت پیشرفت کر رہی ہے ۔ اقلیتی نوجوانوں کیلئے زیادہ نہ صحیح لیکن مساوی مواقع فراہم کرنے کی بجائے انہیں جومعمولی سے مواقع درپیش تھے انہیں بھی ختم کر رہی ہے اور انہیں سہولیات سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ یہ درا صل مرکزی حکومت کی متعصب ذـہنیت اور تنگ نظری کا ثبوت ہے ۔ ان اقدامات کے ذریعہ حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرہ کے برخلاف ہی کام کر رہی ہے اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے معاملہ میں حکومت کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس نعرہ میں سب کا وشواس جیسے جملہ کا اضافہ کیا گیا تھا لیکن وشواس جیتنے کیلئے جو اقدامات کرنے چاہئے تھے ان کی بجائے ان کے برخلاف اقدامات کئے جا رہے ہیں اور جو کچھ وشواس پہلے سے تھا اسے بھی حکومت اپنے اقدامات کی وجہ سے ختم کرتی جا رہی ہے ۔
سماج کے ہر طبقہ کیلئے مرکزی بجٹ میں کچھ نہ کچھ نئی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ رقومات میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن اقلیتوں کا جہاں تک معاملہ ہے تو حکومت اس معاملے میںانتہائی تنگ نظر ہوگئی ہے ۔ اقلیتوں کے ساتھ جو نا انصافیاں ہر معاملے میںکی جا رہی ہیں انہیں باضابطہ حیثیت دیتے ہوئے بجٹ کا حصہ بھی بنادیا گیا ہے ۔ ایک طرف حکومت اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کے اقدامات کرنے کا دعوی کرتی ہے اور دکھاوے کیلئے ملاقاتیں بھی کی جاتی ہیں لیکن یہ ملاقاتیں کوئی سود مند ثابت نہیں ہو رہی ہیں اور حکومت دھوکہ دیتے ہوئے اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی کا سلسلہ دراز کرتی جا رہی ہے اور حکومت کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے ۔