اقلیتوں کے بجٹ میں کمی

   

پرانے شہر کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی نہیں
اقلیتوں کے مسائل پر پرانے ریکارڈس کا اعادہ

محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ اسمبلی کا مانسون سیشن مجموعی اعتبار سے حضور آباد اسمبلی حلقہ کی ضمنی انتخابی مہم کے پلیٹ فارم میں تبدیل ہوگیا۔ حکمراں جماعت نے ایوانوں میں عددی طاقت کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور حکومت کی اسکیمات ، مستقبل کے منصوبوں اور سابق حکمرانوں کی ناکامیوں کی بھرپور تشہیر کی گئی۔ اقلیتوں کے مسائل پر پرانے ریکارڈس کو دہرایا گیا۔ ایوانوں میں ماضی میں اُٹھائے گئے سوالات پر کوئی ایکشن ٹیکس رپورٹ پوچھی نہیں گئی اور نہ ہی حکومت نے اپنے کارنامہ کے طور پر اس کو پیش کیا گیا۔ اقلیتوں کے مسائل پر ہمیشہ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی اٹھایا گیا چیف منسٹر کے سی آر نے سی بی سی آئی ڈی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا لیکن چار سال قبل وقف ریکارڈ کو ضبط کرتے ہوئے مقفل کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ پرانے شہر کو استنبول بنانے کا 5 سال قبل اعلان کیا گیا۔ اس پر آج تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی مگر اسمبلی میں اس وعدے کو دوبارہ دہرایا گیا ہے۔ پرانے شہر کی ترقی پر 14 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا گیا مگر کونسے حلقہ پر کونسے مسائل حل کئے گئے۔ کتنے ترقیاتی کام انجام دیئے گئے اس کی کوئی تفصیلی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔ مانسون سیشن کے دوران چیف منسٹر کے سی آر ، ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق ، قائد اپوزیشن اکبرالدین اویسی کی تقاریر اور مسائل پر گفتگو اس مرتبہ بھی چھائی رہی۔ دل خوش کرنے والی ثابت ہوئی کیونکہ مختصر سیشن میں بھی نہ صرف مسلمانوں، پرانے شہر میں میٹرو ریل، اوقافی جائیدادوں کے علاوہ دلتوں کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ سرکاری بینچوں کی جانب سے اعلانات پر ریاست کے عوام نے خوب واہ واہ کی لیکن باشعور گوشے اب بھی یہ سوال کررہے ہیں کہ جو اعلانات تشکیل تلنگانہ کے بعد منعقد ہونے والی اسمبلی سیشن کے دوران کئے گئے تھے۔ ان پر کس حد تک عمل آوری کی گئی؟ چیف منسٹر نے وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کی سی بی سی آئی ڈی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا لیکن 2017ء میں وقف بورڈ کو منتقل کرکے جو تحقیقات کا اعلان کیا گیا، اس کا کیا ہوا، کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس طرح چیف منسٹر نے پچھلے تین سال کے دوران اسمبلی میں انٹرنیشنل اسلامک سنٹر تعمیر کرنے 10 ایکر اراضی مختص کرنے کے ایک سے زائد مرتبہ وعدہ کیا مگر آج تک اس کا سنگ بنیاد نہیں رکھا گیا۔ 12% مسلم تحفظات، آلیر انکاؤنٹر، اجمیر میں رباط کا قیام اور دیگر اُمور پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اوقافی جائیدادوں پر جو ناجائز قبضے ہوئے ہیں، اس کو برخاست کیا جاسکتا ہے۔ اگر ممکن ہے تو پہلے سرکاری محکمہ جات، مال، جنگلات وغیرہ کی جانب سے وقف جائیدادوں پر جو دعوے کئے جارہے ہیں، چیف منسٹر پہلے اس کی یکسوئی کریں، وقف بورڈ کے عہدیداروں اور دوسرے محکمہ جات کے عہدیداروں کو ایک ٹیبل پر بٹھاتے ہوئے وقف سروے ریکارڈ کے تحت جن اراضیات پر سرکاری محکمہ جات کے قبضے ہیں، انہیں اس سے دستبردار کراتے ہوئے ساری اراضی وقف بورڈ کے حوالے کردیں۔ یہ چیف منسٹر کے اختیار میں ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر یہ کام کرسکتے ہیں۔ پہلے چیف منسٹر اس معاملے میں اپنی سنجیدگی کا اظہار کریں۔ تب چیف منسٹر پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان وقف اراضیات پر کوئی تعمیرات ہوئی ہیں تو انہیں وقف بورڈ کا کرایہ دار بنایا جائے۔ ریاست کے مجموعی بجٹ میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اقلیتوں کا بجٹ گھٹ رہا ہے۔ اقلیتی بجٹ 2000 کروڑ روپئے سے گھٹ کر 1400 کروڑ روپئے ہوگیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ ان 1400 کروڑ روپئے کا بجٹ سال بھر میں بھی پوری طرح جاری نہیں ہوتا، وہیں حضورآباد ضمنی انتخابات کے پیش نظر دلت بندھو اسکیم کا اعلان کیا گیا اور اندرون 15 یوم اسکیم پر عمل آوری کیلئے 2000 کروڑ روپئے جاری کردیئے گئے۔ چیف منسٹر نے آئندہ سال دلت بندھو اسکیم کیلئے بجٹ میں 20 ہزار کروڑ روپئے جاری کرنے کا اسمبلی میں اعلان کردیا۔ دلت بندھو اسکیم کے مباحث پر ارکان کی جانب سے توجہ دلانے پر چیف منسٹر نے بی سی، ایس ٹی اور اقلیتوں کیلئے بھی اسی طرز پر کوئی نئی اسکیم متعارف کرانے کا تیقن دیا۔ مگر شاید قارئین کو یاد ہوگا کہ حکومت نے مسلمانوں کو صنعتی شعبہ سے جوڑنے کیلئے پرائم اسکیم کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت کتنے مسلمانوں کو اس اسکیم سے جوڑا گیا، کتنے مسلمانوں کی صنعتیں قائم ہوئیں، یہ اسکیم شروع ہوئی بھی یا نہیں۔ اس پر حکومت نے آج تک کوئی جواب نہیں دیا۔ 12% مسلم تحفظات پر عمل آوری کیلئے صرف 4 ماہ کا وعدہ تھا۔ تقریباً 90 ماہ مکمل ہوگئے، اس پر کوئی عمل آوری نہیں صرف اسمبلی میں قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو روانہ کردی گئی، اس کے بعد دہلی پہنچ کر پانچ یا اس سے زائد مرتبہ چیف منسٹر کے سی آر نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ ریاست کے دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا مگر 12% مسلم تحفظات پر کبھی توجہ نہیں دلائی گئی۔ چیف منسٹر نے پرانے شہر کو استنبول بنانے کا اسمبلی میں دوبارہ وعدہ کیا ہے۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے بلکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ پرانا شہر بھی ترقی کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استنبول کے طرز پر ترقی دینے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی، عہدیداروں کی ایک ٹیم کو استنبول روانہ کرتے ہوئے وہاں کے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا گیا۔ کیا حکومت نے اس منصوبہ کیلئے کوئی خاص بجٹ مختص کیا ہے۔ کیا چیف منسٹر نے پرانے شہر کو ترقی دینے کیلئے کبھی کوئی اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا ہے۔ کیا صرف اعلانات ، وعدے اور تیقنات سے عمل آوری سے استنبول بنتا ہے۔ ایک مرتبہ اکبرالدین اویسی نے اسمبلی میں طنزیہ انداز میں کہا تھا۔ آپ میرے کانوں کو خوش کئے، میں نے آپ کے کانوں کو خوش کیا۔ مذاق میں بھی کہی جانے والی بات اب صحیح ثابت ہورہی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر تو سوال اٹھائے جارہے ہیں، ڈٹ کر عمل درآمد رپورٹ طلب نہیں کی جارہی ہے۔