اقلیتی اداروں اور فلاحی اسکیمات پر چیف منسٹر کی توجہ مرکوز

,

   

کارکردگی بہتر بنانے محمود علی کی خدمات، لوک سبھا نتائج کے بعد مسلمانوں پر توجہ، چیف منسٹر کارکردگی سے مطمئن نہیں
حیدرآباد 11جون (سیاست نیوز) تلنگانہ میں اقلیتی بہبود اسکیمات پر موثر عمل آوری و اقلیتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے چیف منسٹر کے چندر شکھر راؤ یہ ذمہ داری وزیر داخلہ محمد محمود علی کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اقلیتی بہبود کی کارکردگی کا اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس ضمن میں مختلف اداروں سے کارکردگی کے بارے میں تفصیلات طلب کی گئیں۔ اسکیمات پر عمل آوری اور اداروں کی کارکردگی سے چیف منسٹر مطمئن نہیں ہیں، لہذا انہوں نے اجلاس کو آئندہ کیلئے ملتوی کردیا ہے۔ مختلف محکمہ جات سے ڈائرکٹر اقلیتی بہبود نے رپورٹ طلب کرکے چیف منسٹر کے دفتر روانہ کیا تھا ۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اسکیمات پر عمل آوری کی رفتار سے مطمئن نہیں ہیں۔ مختلف اضلاع سے عوامی نمائندوں نے چیف منسٹر کو شکایت کی ہے کہ اقلیتی ادارے دیگر طبقات کے اداروں کے مقابلہ غیر کارکرد ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اسکیمات پر عمل کی رفتار سست ہے۔ جب کبھی عوامی نمائندے عہدیداروں سے اس سلسلہ میں ربط قائم کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنادیا جاتا ہے ۔ فلاحی اسکیمات کی درخواستوں کی یکسوئی کے سلسلہ میں تاخیر کیلئے اسٹاف کی کمی کا بہانہ بنادیا جاتا ہے۔ ارکان اسمبلی کی مسلسل شکایتوں کے بعد بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اقلیتی بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کو اقلیتوں کی بھرپور تائید حاصل ہوئی تھی جبکہ لوک سبھا انتخابات میں اقلیتوں نے بیشتر حلقوں میں کانگریس کے حق میں ووٹ دیا ۔

انتخابی نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد کے سی آر اس نتیجہ پر پہنچے کہ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کے خراب مظاہرے کی اہم وجہ اقلیتوں سے دوری ہے ۔ نظام آباد اور کریم نگر جہاں کویتا اور کے سی آر کے رشتہ دار ونود کمار کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ، وہاں مسلمانوں نے ٹی آر ایس کی تائید میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ۔ اس کے نتیجہ میں دونوں نشستوں سے محروم ہونا پڑا۔ مستقبل میں مسلم اقلیت کو ٹی آر ایس کے ساتھ جوڑنے کے سی آر محکمہ اقلیتی بہبود کو متحرک کرکے موجودہ اسکیمات کے علاوہ بعض نئی اسکیمات کے آغاز کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر محکمہ اقلیتی بہبود کے امور کی نگرانی وزیر داخلہ محمد محمود علی کے سپرد کرسکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے پانچ برسوں میں اقلیتی بہبود پر کافی مضبوط گرفت رکھ چکے ہیں۔ پہلی میعاد میں وزیر مال کے علاوہ انہوں نے اقلیتی امور پر توجہ دی تھی کیونکہ اقلیتی امور کا قلمدان چیف منسٹر کے پاس تھا۔ محمود علی وقفہ وقفہ سے اقلیتی اداروں اور اسکیمات پر عمل آوری کا جائزہ لیتے رہے لیکن دوسری میعاد میں 6 ماہ گزرنے کے باوجود اقلیتی بہبود پر ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا ۔ کے ایشور کو ایس سی اور بی سی کے ساتھ اقلیت کا قلمدان دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ محکمہ اقلیتی بہبود پر توجہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چیف منسٹر اس بارے میں جلد فیصلہ کریں گے۔ کابینہ میں توسیع کے موقع پر محمود علی کو اقلیتی بہبود کا اضافی قلمدان دیا جاسکتا ہے یا پھر وزارت داخلہ کے بجائے مکمل طور پر اقلیتی بہبود کا قلمدان حوالہ کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر اپنے بااعتماد رفیق محمود علی کو اقلیتی بہبود کے ساتھ کوئی اور قلمدان تفویض کرسکتے ہیں۔ تاہم وزارت داخلہ کسے حوالہ کیا جائے اس بارے میں قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ چند ماہ سے محکمہ اقلیتی بہبود کی کارکردگی عملاً ٹھپ ہوچکی ہے اور اسکیمات پر عمل آوری کی نگرانی کیلئے کوئی موزوں عہدیدار نہیں ہے۔ موجودہ سکریٹری اقلیتی بہبود حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں کہ اداروں کی کارکردگی بہتر ہو اور اداروں کو جوابدہ بنایا جائے لیکن محکمہ میں عہدیداروں کی کمی ان کی راہ میں اہم رکاوٹ بن چکی ہے۔