اقلیتی نوجوانوں کو بینک کے ذریعہ قرضوں کی فراہمی کا وعدہ وفا نہ ہوا

   

4 سال قبل وصول کردہ درخواستوں کو مسترد کرنے اور نئی درخواستوں کی طلبی پر غور
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔19فروری۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ریاست تلنگانہ کے اقلیتی نوجوانوں کو بینک کے ذریعہ قرض کی فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے سال 2015-16 کے دوران وصول کی گئی درخواستوں کو مجموعی اعتبار سے مسترد تصور کیا جائے اور نئی درخواستوں کی وصولی کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں ۔ تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن نے ریاستی حکومت کو روانہ کردہ تجویز میں حکومت سے خواہش کی ہے کہ وہ تمام درخواستیں جو کہ 4سال قبل وصول کی گئی تھیں انہیں مسترد کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے نئی درخواستیں وصول کی جائیں تاکہ نئی درخواستوں پر از سر نو مؤثر کاروائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بے روزگار نوجوانوں کو بینک کے ذریعہ قرض کی فراہمی اور انہیں حکومت کی جانب سے سبسیڈی کی فراہمی کے اعلان کے ساتھ وصول کی گئی درخواستوں کو جمع کئے ہوئے 4 سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں نہ سبسیڈی جاری کی جا سکی ہے اور نہ ہی انہیں منظور یا مسترد کئے جانے کے متعلق معلومات فراہم کی جا رہی ہیں ۔ سال 2015-16 کے دوران حکومت تلنگانہ کے محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے اس اسکیم میں درخواستوں کی وصولی کا اعلان کرتے ہوئے نوجوانوں کو سبسیڈی والے قرض فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور درخواستوں کی وصولی کے دوران متعدد مرتبہ آخری تاریخ میں توسیع کے اعلان کے سبب اس اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کی جملہ تعداد 1لاکھ 53ہزار 906 تک پہنچ گئی جو کہ بعد از تنقیح درست پائی گئی تھیں۔ بتایاجاتا ہے کہ ان درخواستوں کا متعدد مرتبہ جائزہ لینے اور محکمہ فینانس کو تجاویز روانہ کرنے کے باوجود ان پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور اس کے نتیجہ میں اب یہ درخواستیں بینکوں کی نظر میں مسترد شمار کی جانے لگی ہیں جس کے سبب تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن نے ریاستی حکومت کو تجویز روانہ کی ہے کہ سال 2015-16کے دوران وصول کی گئی قرض کی ان درخواستوں کو مسترد کرنے کا علان کرنے کے ساتھ ساتھ نئی درخواستوں کی وصولی کی اجازت فراہم کی جائے ۔ ان درخواستوں کے قانونی پہلو کا جائزہ لینے کے بعد کی گئی اس سفارش کے متعلق بتایاجاتا ہے کہ تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو بینکوں سے موصولہ شکایات کی بنیاد پر یہ اقدام کیا گیا ہے۔ سال 2015-16 کے دوران جو درخواستیں وصول کی گئی ہیں ان کے ساتھ منسلک کئے جانے والے صداقتنامۂ آمدنی کی مدت ایک برس کی تھی اور محکمہ مال اور تحصیلدار کی جانب سے جاری کئے جانے والے صداقتنامۂ آمدنی کی مدت ایک برس ہوتی ہے اور اس ایک برس کی مدت کے دوران ہی یہ صداقت نامہ آمدنی کارکرد ہوتا ہے اس کے بعد اس سرٹیفیکیٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور جو درخواستیں وصول کی گئی ہیں ان کے ساتھ منسلک کردہ صداقتنامہ ٔ آمدنی کی اجرائی کو 4برس ہوچکے ہیں اسی لئے اس اہم دستاویز کے غیر کارکرد ہونے کے بعد ان درخواستوں پر قرض یا سبسیڈی کی اجرائی ممکن نہیں ہے اسی لئے بینکوں کی جانب سے بھی اعتراض کیا جانے لگا ہے اور خود محکمہ فینانس کی جانب سے بھی یہ اعتراض کیا جا رہاہے کہ جو دستاویزات غیر کارکرد ہوچکے ہیں ان کی بنیادپر سبسیڈی کی اجرائی ممکن نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کو روانہ کردہ تجویز کے سلسلہ میں جناب محمد عبدالوحید نائب صدرنشین و منیجنگ ڈائریکٹر تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے دریافت کئے جانے پر انہوں نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز روانہ کی گئی ہے اور اس تجویز کے ساتھ اس بات کی بھی اجازت طلب کی گئی ہے کہ قرض کے سلسلہ میں نئی درخواستوں کی وصولی کی اجازت کارپوریشن کو فراہم کی جائے تاکہ از سر نو کاروائی کے ذریعہ سبسیڈی کی رقومات جاری کی جا سکیں۔ بتایاجاتا ہے کہ سال 2015-16کے دوران جو ایک لاکھ 53ہزار906 درخواستیں وصول کی گئی ہیں ان درخواستوں کو سبسیڈی کی اجرائی کے فیصلہ کی صورت میں 2600 کروڑ درکار تھے اور حکومت اور محکمہ فینانس کے عہدیداروں کو متعدد مرتبہ اس جانب توجہ مبذول کروائی گئی اور ان سے اس سلسلہ میں کوئی قطعی فیصلہ کرنے کی درخواست کی جاتی رہی لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہ کئے جانے کے سبب اب یہ درخواستیں عملی اعتبار سے کارکرد نہیں رہی لیکن اگر ریاستی حکومت کی جانب سے ان درخواستوں کی یکسوئی کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں حکومت کی جانب سے اسکیم میں موجود صداقتنامہ ٔ آمدنی کی شرط سے ان درخواست گذاروں کو مستثنی قرار دینا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو ان درخواستوں پر کسی قسم کی مثبت کاروائی کا گمان کرنا فضول ہوگا بلکہ ان درخواستوں کو مسترد تصور کئے جانے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی معاشی ترقی اور انہیں روزگار سے مربوط کرنے کے اقدامات کے سلسلہ میں کئے جانے والے دعوے اس ایک اسکیم کی موجودہ صورتحال سے واضح ہوجاتے ہیں ۔( سلسلہ جاری )