الکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ !

   

ہندوستانی جمہوریت کو خطرہ کس سے ہے یہ بحث شدت اختیار کرتی جارہی ہے ۔ مرکز میں جب سے نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت آئی ہے ۔ کئی جمہوری اداروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ اب ایک اہم اور نازک مسئلہ پر اپوزیشن پارٹیوں نے توجہ دلایاہے ۔ امریکہ سے ایک سائبر ماہر کا دعویٰ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کیساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ریلائنس گروپ کے موبائل شعبہ کے اشاروں پر الیکٹرانک ووٹنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ۔ ان کو ہیک کرلیتے ہوئے بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈلوائے گئے ۔ بظاہر یہ دعویٰ تشویشناک ہے مگر دعویٰ کرنے والے کے تعلق سے یہ بات غور طلب ہے کہ ہندوستانی الکٹرانک مشینوں کی تیاری میں اس نے حصہ لیا ہے ۔ جس ٹیم نے ان مشینوں کو وضع کیا ہے وہ اس ٹیم کا رکن تھا لیکن لوک سبھا انتخابات کے بعد اس کی ٹیم کے چند ارکان کے قتل اور جان سے مار ڈالنے والی دھمکیوں کے بعد وہ ہندوستان سے فرار ہو کر امریکہ میں پناہ لینے کو ترجیح دی ہے ۔ ان کی باتوں اور دعوؤں میں کتنی حقیقت ہے اس پر بحث سے پہلے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ آیا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن ہے ۔ اس حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے غیر جانبدارانہ اور دیانتدارانہ تحقیقات کروائے جانے چاہئے ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے امریکہ سے کئے جانے والے سائبر ماہر سید شجاع کے دعویٰ کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اس دعویٰ کو مسترد بھی کردیا ہے ۔ الیکٹرانک مشینوں اور کمپیوٹرس میں ہیکنگ کے امکانات کو تو مسترد نہیں کیا جاتا ۔ آج ساری دنیا میں سائبر کرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ہیکرس اپنی فنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے ذریعہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ اس لیے ہندوستانی الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کرلینے کی بات بھی توجہ چاہتی ہے ۔ ان مشینوں کے تعلق سے اپوزیشن نے ایک سے زائد مرتبہ شبہات کا آغاز کیا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے ان مشینوں میں خرابیوں کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے انہیں درست قرار دیا تھا ۔ اب الیکشن کمیشن آف انڈیا بھی سپریم کورٹ کے اس حکم کو ہی اپنے لیے فرمانِ آخر تسلیم کرتے ہوئے سائبر ماہرین کے دعوؤں کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کا جائزہ لینا اس کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑا فرض ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی شکایت کی سماعت اور ان کی شکایت کو دور کرنا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کے سامنے اس وقت ملک کے ہر دستوری اور جمہوری ادارے بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ ادارے وہی کام انجام دے رہے ہیں جنہیں کرنے کے لیے سیاسی آقاؤں سے اشارے ملتے ہیں ۔ بی جے پی نے 2014 کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ اس کو کانگریس کی اسپانسر کردہ سازش بھی قرار دیا ہے ۔ بی جے پی ایک قومی پارٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی حکمراں پارٹی بھی ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ وہ ان الزامات کا جائزہ لیتے ہوئے اپوزیشن کے دعوؤں کو غلط ثابت کرے یا پھر ان کی تحقیقات کرانے کا حکم دے ۔ مگر بی جے پی نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنی حکومت کی ذمہ داریوں کو فراموش کردیا ہے ۔ اب ملک میں لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ انتخابات ہر سیکولر شہری کے لیے اہم ہیں ۔ اس مرتبہ بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے تو بی جے پی کے حق میں ہی ووٹ پڑیں گے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کو ان مشینوں سے شکایت ہے تو اس پر غور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن حکمراں پارٹی اُلٹے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت کی شان اس ملک کے انتخابات ہیں جب ان انتخابات کو ہی مشکوک بنایا جائے تو پھر جمہوریت کو خطرہ لاحق ہونے کی شکایت درست کہلائے گی ۔۔