الیکشن اور اقلیت ، آندھراپردیش میں مسلم ووٹ بینک پر تین پارٹیوں کی نظر

   

تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس زیادہ پُرامید، مسلمانوں کا جھکاؤ چندرا بابو نائیڈو کی طرف، شرمیلا بھی سرگرم
حیدرآباد ۔ 26 ۔ اپریل (سیاست نیوز) آندھراپردیش میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے تین بڑی پارٹیوں میں زبردست مسابقت دیکھی جارہی ہے۔ آندھراپردیش میں لوک سبھا کے ساتھ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کیلئے 13 مئی کو رائے دہی مقرر ہے اور متحدہ ریاست کی تقسیم کے بعد نئی آندھراپردیش ریاست میں مسلم اقلیت کی آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن متحدہ اضلاع کے اعتبار سے پانچ اضلاع میں مسلمان فیصلہ کن رول ادا کرنے کے موقف میں ہیں۔ رائلسیما کے اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی قابل لحاظ ہے جبکہ آندھرا میں وجئے واڑہ اور وشاکھاپٹنم میں مسلمان سیاسی طور پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد نئی ریاست میں کانگریس کا وجود ختم ہوگیا تھا اور 2014 میں مسلمانوں نے تلگو دیشم اور 2019 میں وائی ایس آر کانگریس کی تائید کی تھی۔ جاریہ الیکشن میں مسلم ووٹ کیلئے کانگریس کے طور پر تیسرے دعویدار کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اصل دعویداری وائی ایس آر کانگریس اور تلگو دیشم کی ہے جو اقتدار کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آندھراپردیش میں اقلیتوں کی آبادی 8 تا 10 فیصد بتائی جاتی ہے اور اگر مسلم رائے دہندے کسی ایک پارٹی کے حق میں متحدہ طور پر رائے دہی کریں تو وہ اقتدار تک پہنچنے کی طاقت حاصل کرلے گی۔ تلنگانہ کے مقابلہ آندھراپردیش کے مسلمانوں نے رائے دہی میں حصہ لینے سیاسی شعور کچھ زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تینوں سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹ بینک پر توجہ مرکوز کرچکی ہیں۔ وائی ایس آر کانگریس گزشتہ پانچ برسوں کی کارکردگی اور آنجہانی ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی وراثت کے نام پر مسلمانوں کے ووٹ پر اپنا حق جتانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ تلگو دیشم اپنے سابقہ ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر پرامید ہے کہ مسلمان اس کا ساتھ دیں گے ۔ 10 سال کے وقفہ کے بعد راج شیکھر ریڈی کی دختر شرمیلا کے ذریعہ کانگریس ہائی کمان آندھرا پردیش یونٹ میں نئی جان پھونکنے کی کوشش کر رہی ہے اور کانگریس کو اپنے روایتی ووٹ بینک مسلمانوں پر بھروسہ ہے۔ آندھرا پردیش کے مسلم ووٹرس کس کی امید پر کھرا اتریں گے اس کا منظر ابھی واضح نہیں ہے کیونکہ آندھراپردیش کی اہم مسلم مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نے سیاسی تائید کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے ذمہ دار تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس میں کسی ایک کا انتخاب کرسکتے ہیں کیونکہ کانگریس پارٹی ابھی اقتدار حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم ووٹ کی دعویدار دونوں پارٹیاں بی جے پی سے قربت کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے گزشتہ پانچ برسوں میں غیر معلنہ طورپر مرکز میں بی جے پی کی حلیف کا رول ادا کیا جبکہ تلگو دیشم نے الیکشن سے عین قبل این ڈی اے میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی ۔ بی جے پی سے وابستگی کا ریکارڈ رکھنے کے باوجود دونوں پارٹیاں مسلمانوں کی ہمدردی کے دعوے کر رہی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ دنوں میں مسلمانوں سے متعلق جو اشتعال انگیزی کی اس پر تلگو دیشم نے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں تک یہ پیام پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ سیکولر ایجنڈہ پر قائم ہے۔ صدر تلگو دیشم این چندرا بابو نائیڈو نے چار فیصد مسلم تحفظات کی برقراری کا اعلان کیا جبکہ بی جے پی مسلم تحفظات کے خلاف ہے۔ چندرا بابو نائیڈو تلنگانہ میں کانگریس کی طرح آندھراپردیش کے مسلمانوں کیلئے تلگو دیشم کی جانب سے ترقیاتی ڈکلیریشن جاری کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں جس کے تحت مسلمانوں سے کئی وعدے کئے جائیں گے ۔ تلگو دیشم نے جنا سینا کے ساتھ مل کر انتخابی مصلحت کے تحت بی جے پی کا دامن تھام لیا لیکن وائی ایس آر کانگریس بھی بی جے پی سے دوستی کے بارے میں پرجوش نظر آرہی ہے۔ گزشتہ دنوں برسر اقتدار پارٹی کے رکن اسمبلی اے رام بابو کا ایک ٹی وی چیانل کو دیا گیا انٹرویو کافی وائرل ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ اگر وائی ایس آر کانگریس لوک سبھا کی 25 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو وہ مرکز میں بی جے پی کی تائید کریگی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس سے اختلاف کرکے وائی ایس آر کانگریس قائم کی گئی ، لہذا دوبارہ کانگریس کی تائید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رام بابو کے اس بیان پر مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ وائی ایس آر کانگریس قیادت نے بھی رام بابو کے بیان پر کوئی وضاحت نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں پارٹیاں مرکز میں بی جے پی کے تیسری مرتبہ اقتدار کا یقین رکھتی ہیں اور مرکزی حکومت کے تعاون سے ریاست کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ دونوں دعویداروں کے بیچ میں کسی ایک کا انتخاب کرنا مسلم ووٹرس کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں ۔ عام طور پر مسلمانوں کا رجحان تلگو دیشم کی طرف دکھائی دے رہا ہے کیونکہ عوام نے جگن موہن ریڈی کو اقتدار کا موقع دے دیا ہے اور وہ تبدیلی کے حق میں ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے متحدہ آندھرا پردیش اور پھر علحدہ ریاست میں اقلیتوں کی بھلائی کیلئے جو اقدامات کئے تھے ، آج بھی اس کے اثرات باقی ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو کو یقین ہے کہ مسلمان اس مرتبہ تلگو دیشم کی تائید کرکے اقتدار تک پہنچائیں گے ۔ آندھراپردیش میں مسلم سیاسی قائدین کی اکثریت بھی تلگو دیشم کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ریٹائرڈ آئی پی ایس عہدیدار شیخ محمد اقبال نے وائی ایس آر کانگریس اور کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تلگو دیشم میں شمولیت اختیار کرلی۔ ہندوپور اور اطراف کے اضلاع میں شیخ محمد اقبال خاصہ اثر رکھتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق کڑپہ ، کرنول ، اننت پور ، وجئے واڑہ اور وشاکھا پٹنم میں مسلم ووٹرس کی اکثریت تلگو دیشم کے ساتھ ہے ۔ ریاست میں لوک سبھا کی 25 اور اسمبلی کی 175 نشستوں کیلئے 13 مئی کو رائے دہی ہوگی۔ 1