الیکشن دولت کا کھیل، ہر لوک سبھا حلقہ میں 100 تا 150 کروڑ خرچ کا امکان

   

دولتمند امیدواروں کو ترجیح، عوام بھی مالی فائدہ کے عادی، سنجیدہ قائدین کو مایوسی
حیدرآباد۔/26 مارچ، ( سیاست نیوز) انتخابی مصارف پر الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کیلئے حدود کا تعین کیا ہے لیکن اسمبلی اور لوک سبھا چناؤ میں انتخابی مصارف میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انتخابی مہم کے بدلتے رجحانات نے الیکشن میں دولت کے استعمال کے رجحان کو مضبوط کردیا ہے اور رائے دہندوں کو عادت ہوچکی ہے کہ وہ امیدواروں سے مالی منفعت کا مطالبہ کریں۔ گذشتہ دو عام انتخابات میں تلنگانہ میں امیدواروں کی جانب سے کروڑہا روپئے خرچ کے معاملات نے الیکشن کمیشن کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ لوک سبھا کے مجوزہ چناؤ میں امیدواروں کی جانب سے 100 تا 150 کروڑ روپئے کے خرچ کا تخمینہ کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف ایسے امیدواروں کو ٹکٹ الاٹ کررہی ہیں جو زیادہ رقومات خرچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ کانگریس، بی آر ایس اور بی جے پی تینوں پارٹیوں نے لوک سبھا امیدواروں کے انتخاب میں مستحکم مالی موقف کو بنیاد بنایا ہے۔ حالیہ اسمبلی چناؤ میں کئی حلقہ جات میں امیدواروں نے 70 تا 80 کروڑ روپئے خرچ کئے جبکہ امیدواروں کا کم سے کم خرچ 20 تا 40 کروڑ بتایا گیا ہے۔ لوک سبھا کے حلقہ جات وسیع ہوتے ہیں اور ہر لوک سبھا حلقہ کے تحت 6 تا 7 اسمبلی حلقہ جات ہیں لہذا امیدواروں کو ہر اسمبلی حلقہ میں 20 تا 30 کروڑ کے حساب سے 100 تا 150 کروڑ روپئے خرچ کرنے ہوں گے۔ لوک سبھا چناؤ تینوں پارٹیوں کیلئے وقار کا مسئلہ بن چکا ہے۔ بی جے پی کو مرکز میں تیسری مرتبہ اقتدار کیلئے زائد نشستوں کی ضرورت ہے جبکہ بی آر ایس اسمبلی چناؤ کی شکست سے ابھرنا چاہتی ہے۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی ہائی کمان کے پاس اپنا موقف بہتر بنانے کیلئے 14 نشستوں پر کامیابی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ انتخابی مہم جس قدر طویل ہوگی امیدوار پر اتنا ہی مالی بوجھ پڑے گا۔ تلنگانہ میں رائے دہی 13 مئی کو مقرر ہے لیکن اہم پارٹیوں کے امیدواروں نے ابھی سے انتخابی مہم کا عملاً آغاز کردیا ہے۔ انتخابی ریالیوں اور جلسوں میں شرکت کیلئے رائے دہندے بھاری رقم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ رائے دہی کے دن تو ہر ووٹر کو 5 تا 10 ہزار روپئے دیئے جانے اور خواتین کو ایک تولہ سونا دینے کے واقعات بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ انتخابات میں دولت کے بڑھتے استعمال نے سنجیدہ عوامی خدمت گذاروںکو الیکشن سے دور کردیا ہے۔ عوام کی خدمت کا جذبہ اور مقبولیت کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر منتخب ہونے والے عوامی نمائندے بزنس مین ہیں یا پھر دولت مند گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھاری رقومات خرچ کرکے کامیابی پانے والے قائدین میں عوام کی خدمت کا جذبہ کم پایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب 100 کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں تو پانچ سال میں اس سے زائد کمانے کی فکر رہے گی اور عوامی خدمت کا معاملہ ثانوی نوعیت اختیار کرلے گا۔ الیکشن کمیشن کی پابندیاں اور شرائط بھاری رقومات کے خرچ کو روکنے سے قاصر ہیں۔1