الیکشن سے قبل دو امیدواروں کی ملاقات پر سوالیہ نشان

   

حیدرآباد کے بی آر ایس امیدوار دارالسلام میں ، مقامی جماعت کی دوستی آخر کس کے ساتھ ؟
حیدرآباد ۔ 29 ۔ مارچ (سیاست نیوز) کسی بھی الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے امیدواروں کے نام کا اعلان محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ امیدوار پوری سنجیدگی اور دیانتداری کے ساتھ پارٹی کی کامیابی کیلئے کام کرے۔ سیاسی پارٹیوں میں مفاہمت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان دنوں خفیہ مفاہمت کی نئی روایت نے سیاسی نظام کو داغدار بنادیا ہے ۔ رائے دہندوں کو گمراہ کرنے کیلئے ’’دوستانہ مقابلہ‘‘ کے نئے طریقہ کار کے ذریعہ مخصوص افراد کی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جہاں تک حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے الیکشن کا سوال ہے ، یہ طئے کرنا مشکل ہے کہ مقامی جماعت مجلس کی مفاہمت اور دوستی آخر کس کے ساتھ ہے۔ بی آر ایس کے 10 سالہ دور حکومت میں ’’کے سی آر انا ‘‘ بھرپور تائید کی گئی اور اسمبلی چناؤ کی مہم میں بی آر ایس کیلئے کھل کر ووٹ کی اپیل کی گئی ۔ مقامی جماعت کے قائدین نے صدر پردیش کانگریس ریونت ریڈی کو ’’آر ایس ایس انا‘‘ اور ’’آر ایس ایس ٹلو‘‘ جیسے القاب سے نوازا تھا۔ نتائج کے اعلان کے فوری بعد صورتحال تبدیل ہوگئی اور مقامی جماعت کا جھکاؤ برسر اقتدار کانگریس کی طرف دکھائی دینے لگا۔ حتیٰ کہ مقامی جماعت کے قائدین نے چیف منسٹر ریونت ریڈی کے ساتھ افطار پارٹی اور دیگر پروگراموں میں اسٹیج شیئر کرتے ہوئے ان کی بھرپور تعریف بھی کی ۔ لوک سبھا چناؤ میں حیدرآباد سے بی آر ایس اور کانگریس کے امیدواروں کے بارے میں تجسس پایا جاتا تھا اور کے سی آر نے جی سرینواس یادو کو حیدرآباد سے اپنا امیدوار مقرر کیا جبکہ کانگریس 31 مارچ کو امیدوار کے نام کا اعلان کرے گی۔ مقامی جماعت کی مفاہمت کیا بی آر ایس سے برقرار ہے یا پھر دونوں پارٹیوں کے ساتھ یکساں طور پر مفاہمت کی جارہی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنے کیلئے یہ تصویر کافی ہے جس میں بی آر ایس کے امیدوار جی سرینواس یادو مجلس کے ہیڈ کوارٹر دارالسلام پہنچ کر اسد الدین اویسی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ حریف امیدوار کے دفتر پہنچ کر دوسری پارٹی کے امیدوار کا عقیدت و احترام کے ساتھ ملاقات کرنا رائے دہندوں میں کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ بی آر ایس اور اس کے امیدوار کو اس سلسلہ میں عوام سے وضاحت کرنی چاہئے ۔ یہ ملاقات کیا امیدواری کے اعلان سے قبل کی گئی تھی یا اعلان کے بعد کی ہے؟ عام طورپر کہا جاتا ہے کہ مجلس کے مشورہ سے ہی حیدرآباد کے امیدوار کا انتخاب ہوتا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امیدواری کے اعلان پر اظہار تشکر کے لئے جی سرینواس یادو نے اسد اویسی سے ملاقات کی ہو۔ الغرض سیاست میں کامیابی کیلئے کچھ بھی کیا جاسکتا اور دوست اور دشمن کی کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس پارٹی حیدرآباد سے مجلس کے خلاف مضبوط امیدوار کا اعلان کرے گی یا پھر بی آر ایس کے سرینواس یادو کی طرح کوئی برائے نام امیدوار رہے گا۔ دونوں امیدواروں کی یہ خیر سگالی اور گرمجوشانہ ملاقات حیدرآباد کے رائے دہندوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ جی سرینواس یادو گوشہ محل اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو لوک سبھا حلقہ حیدرآباد کے تحت آتا ہے ۔ انہوں نے گزشتہ اسمبلی چناؤ میں راجہ سنگھ کے خلاف مقابلہ کیلئے ٹکٹ کی خواہش کی تھی لیکن کے سی آر نے نند کشور ویاس کو ٹکٹ دیا تھا۔ 1