الیکشن کمیشن ’’ زعفرانی کمیشن‘‘ میں تبدیل !!

   

ہندوستان میں انتخابی جمہوریت ای وی ایم کے غلط استعمال سے پامال

محمد انیس الدین
ہندوستان میںایم وای ی ایمکے غلط استعمال سے انتخابی جمہوریت کے معنی و مفہوم بدل چکے ہیں اور جمہوریت اور جمہوری نظام ہنگامی صورتحال اور رائے دیہی کا عمل سانحات کا شکار ہے۔ ان ناگہانی کیفیات میں ملک عزیز میں جمہوریت کا باقی رہنا دشوار بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔
ملک کے ان سنگین حالات کیلئے حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ عوام بھی برابر کے ذمہ دار ہیں کیونکہ 7 سالہ زعفرانی دور مسلسل خلاف دستور اور جمہوریت کے کارناموں پر روک لگانے کی کوششوں پر نہ ہی تو کوئی موثر آواز اٹھائی گئی اور نہ کوئی تحریک شروع کی گئی۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کو آزادی اور جمہوریت کی نہ تو کوئی فکر ہے اور نہ وہ اس کی اہمیت کا اندازہ کررہے ہیں ۔ ایسی کیفیت سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام بہ خوشی زعفرانی غلامی کا ہار پہننے کیلئے تیار ہیں۔ ہندوستان میں گزشتہ سات سال جن افراد اور تنظیموں نے بیالٹ کے استعمال کیلئے اپنی آواز بلند کی وہ میری نظر میں حقیقی محب وطن ہیں۔ یہ افراد اور تنظیمیں اب بھی جان توڑ کوشش میں مصروف ہیں۔ اگر ملک میں جمہوریت اور دستور کو بچانا ہے تو ایسے افراد اور تنظیموں کا عوام کو ساتھ دینا ہوگا۔
ایم وی ایمکے غلط استعمال سے حق رائے دہی کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ اب تو حد ہوگئی کہ حالیہ انتخابات میں ایک ایم وی ایممشین مع بوتھ عملہ کے بی جے پی کے رہنما کی کار میں موجود تھا۔ اس کے بعد کیا کسی اور ثبوت کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ جیت سے پہلے جیت کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور ہمارے پی ایم صاحب بھی کافی مہارت سے پیشگی جیت کا ڈھول پیٹتے ہیں اور ہمارا الیکشن کمیشن کوئی شکایت سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ای سی کو بے شمار شکایتیں گئیں اور فون کالس بھی کئے گئے اور گورنر سے بھی مدد طلب کی گئی، اس کے باوجود بھی ای سیکے کان پر جوں بھی نہیں رینگی اور نہ ای سی نے اس تعلق سے کوئی غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا انتخابی کمیشن مکمل زعفرانی کمیشن میں تبدیل ہوکر غیرجانبدارانہ فیصلہ کرنے سے محروم ہوگیا ہے۔
ای وی ایم ایک دکھائی دینے والا وائرس ہے جس نے نہ صرف جمہوریت کو پامال کیا بلکہ اس کی جڑوں کو اکھاڑنے میں مصروف ہے۔ اب تو بی جے پی کے قدآور لیڈر سبرامنیم سوامی بھی اس مسئلہ پر کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور یہ اعلان کیا کہ ای وی ایم ایک بڑا دھوکہ ہے۔ سبرامنیم سوامی نے ایم وی ایممشین کو
“Whole Sale Fraud”
تک کہہ دیا۔ موصوف کے اس بیان سے بی جے پی کی صفوں میں ایک سونامی آگئی ۔ اس سے قبل جی وی ایل نرسمہا صاحب جو بی جے پی کے مرکزی ترجمان ہیں، انہوں نے تو ایک مکمل کتاب لکھ کر اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ اس مشین کے استعمال سے جمہوریت خطرہ میں ہے۔ خود حکمران جماعت کے سینئر قائدین اس مشین کے استعمال کے خلاف صدائیں بلند کررہے ہیں تو حکومت کو اس کے استعمال کو ترک کرنے میں شرم کیوں محسوس ہورہی ہے۔ ملک کی عدالت عظمی کو آخر کیا ہوگیا کہ اس نے اس مشین کے استعمال کو روک کر بیالٹ پیپر کے استعمال کا مطالبہ کرتے ہوئے جو عرضیاں داخل عدالت ہوئی تھیں ، ان کی سنوائی سے صاف انکار کردیا۔ ایسی صورتحال میں عوام آخر کرے تو کیا کرے۔ اس مشین کے استعمال کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے، وہ ایک پرامن تحریک شروع کرنے کا ہے۔
آسام کے حالیہ انتخابات میں گوہاٹی کے ایک پولنگ بوتھ پر جہاں صرف 90 ووٹرس رجسٹرڈ ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق اس بوتھ پر 181 ووٹس ڈالے گئے۔ کیا ای وی ایم خود سے بی جے پی پر مہربان ہوکر ووٹرس کی تعداد بڑھا رہی ہے یا بی جے پی والوں نے کالا جادو کیا ہے۔ اب تو عوام کی سمجھ میں جو بات گزشتہ سات سال سے نہیں آرہی تھی، ان حقیقی واقعات کے بعد عوام کو مزید تحقیق کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ الیکشن کمیشن نے بوتھ کے 6 عہدیداروں کو خدمات سے معطل کردیا۔ اس میں عہدیداروں کا کیا قصور ہے۔ قصور تو ایم وی ایمکا دکھائی دیتا ہے، لیکن میری نظر میں قصوروار نہ تو عہدیدار ہیں اور نہ ہی مشین۔ قصور تو ای وی ایم کو کب کیا کرنا ہے، اس کو ہدایت دینے والوں کا ہے۔ صرف عوام ایک عام مثال سمجھ لیجئے کہ پٹرول پمپ پر اگر مشین کو 500 روپئے کا پٹرول ڈالنے کی ہدایت دی جائے تو وہ صرف 500 روپئے ہی کا پٹرول ڈالے گا۔ اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ای وی ایم کو جس طریقہ سے ہدایت دی جاتی ہے ،وہ اس کی تعمیل کرتا ہے۔
ایک خبر بذریعہ اخبارات اور سوشیل میڈیا سامنے آئی تھی کہ ایک ار ٹی آئی میں دریافت کے دوران یہ بات ظاہر ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کی تیاری کے آرڈرس جو کمپنیوں کو دیئے تھے، وہ ای وی ایم ، الیکشن کمیشن کی تحویل میں آنے کے بجائے کہیں ہوا میں معلق ہوگئے اور سارے ہندوستان کا دوران انتخابات فضائی دورہ کررہے ہیں اور ای سی کی گاڑیاں جو ای وی ایم انتخابات کے بعد کنٹرول روم کو لے جاتی ہیں، ان کا تعاقب کررہے ہیں اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گاڑیاں تبدیل ہوکر کنٹرول روم کو جاتے ہیں۔ کیا کوئی ہندوستان میں یہ سوال کرنے والا ہے کہ آخر یہ اضافی ای وی ایم کے کیا مقاصد ہیں اور کہاں استعمال ہورہے ہیں۔ ایک منصوبہ بند طریقہ سے ای وی ایم کو قابو میں کرکے جمہوریت کو یرغمال بنایا گیا اور اس کے سہارے ملک میں آمریت کی راہ ہموار ہوتی جارہی ہے اور مستقبل میں ایسا بھی وقت آئے گا کہ جس میں انتخابی جمہوریت کا خاتمہ ہوکر انتخابات کا عمل ہی ختم ہوجائے گا۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عیار حکمران وقفہ وقفہ سے عوام کو غیراہم معاملات میں الجھا کر ملک کے اہم ترین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتے ہوئے اپنے خفیہ اور جمہوریت دشمن منصوبوں پر دیدۂ دلیر اور ڈنکے کی چوٹ پر عمل کرتے ہوئے ملک کے جمہوری نظام کو مفلوج کررہے ہیں۔ اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوست ،دشمن اور محب وطن ، غدار وطن میں تمیز کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت کو بچانے کیلئے کمربستہ ہوکر ایک منظم اور پرامن تحریک کا آغاز کریں اور اس تحریک کا سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے جب تک ملک میں ای وی ایم کا استعمال ترک کرکے بیالٹ پیپرس کا استعمال شروع نہ کیا جائے۔
میری اپنی ذاتی سوچ میں کسان تحریک سے اہم ای وی ایم تحریک ہے کیونکہ اس ایک اہم مسئلہ پر توجہ کی گئی تو دوسرے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے۔ عوام بیدار ہوکر ای وی ایم کے وائرس کے خلاف ایک متحدہ آواز بلند کریں تاکہ ملک میں جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع ملے۔
عوامی رائے اور ووٹ سے بننے والی حکومت کو حقیقی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ ای وی ایم اور اس کے غلط استعمال سے وجود میں آنے والی حکومت کو کیا نام دیا جائے؟ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ ایسی حکومت کو ’’انتخابی آمریت‘‘ کا نام بیرون ملک سے دیا جارہا ہے، لیکن میں ایسا کوئی نام دینے سے اس لئے گریز کررہا ہوں کہ آمریت انتخابات کے ذریعہ نہیں آتی، آمریت کی آمد صرف اور صرف دھاندلی، حق تلفی، ظلم اور بربریت سے ہوتی ہے۔