امریکہ میں پرتشدد مظاہر ے جاری ، کئی شہروں میں کرفیو نافذ

,

   

میناپولس، لاس اینجلس، واشنگٹن سمیت دیگر شہروں میں مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں

واشنگٹن۔ یکم ؍ جون ( سیاست ڈاٹ کام )امریکہ میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد مختلف ریاستوں میں پرتشدد احتجاج اور لوٹ مار کا سلسلہ آج پانچویں روز بھی جاری رہا۔ حکام نے حالات کی سنگینی کے بعد واشنگٹن ڈی سی اور دیگر کئی اہم شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔اتوار کو ایک مرتبہ پھر منیاپولس، لاس اینجلس اور واشنگٹن ڈی سی سمیت کئی شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پرتشدد احتجاج کے دوران دکانوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے۔ اسی طرح نیو یارک اور میامی میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے جبکہ وائٹ ہاوس سے ملحقہ پارک میں مظاہرین کے احتجاج کے بعد مظاہروں سے نمٹنے والی فورس کے دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے ہمراہ نیشنل گارڈز کو بھی مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔واشنگٹن ڈی سی کے میئر کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کرفیو کا نفاذ رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک ہو گا۔مقامی قائدین نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی موت پر تشدد کے بجائے اپنے مطالبات حکام کے سامنے رکھیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ پیر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنے گھٹنے سے دباؤ ڈال رہا تھا جو بعد میں دم توڑ گیا تھا۔بعد ازاں مذکورہ شخص کی شناخت 46 سالہ جارج فلائیڈ کے نام سے ہوئی تھی جو مقامی ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ فلائیڈ کو ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور کے قریب سے جعلی بل منظور کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی کوشش کی۔واقعے کے بعد ریاست منی سوٹا کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس دوران سینکڑوں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔کرفیو کے لیے پولیس اور نیشنل گارڈز کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے۔حکام نے احتجاج سے متاثرہ شہروں واشنگٹن ڈی سی، ہیوسٹن، منیاپولس اور لاس اینجلس میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ شکاگو، ،میامی، ڈیٹرائٹ اور فلاڈلفیا بھی ان 40 شہروں میں شامل ہیں جن میں رات کے وقت مظاہرے کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ امریکہ کی ریاستوں ٹیکساس اور ورجینیا میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ بعد ازاں یہ مظاہرے مختلف ریاستوں اور شہروں میں پھیلتے گئے اور پرتشدد ہنگاموں کی شکل اختیار کر گئے۔ اس دوران لوٹ مار، آتشزنی اور گھیراؤ کے واقعات کی بھی اطلاعات ہیں۔امریکہ کا فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن واقعہ کی تحقیقات کر رہا ہے۔ سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے معاملے پر اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔مقدمہ درج ہونے کے باوجود پر تشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ مظاہرین ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ کے بیانرس کے ساتھ سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں۔ یاد رہیکہ امریکہ میں اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں پولیس کی حراست میں کسی سیاہ فام شہری کی ہلاکت ہوئی ہو۔ 2014 میں نیو یارک میں ایک سیاہ فام شخص پولیس کی زیرِ حراست ہلاک ہو گیا تھا۔ ایرک گارنر نامی سیاہ فام شخص کو کھلے سگریٹس کی غیر قانونی فروخت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔پولیس اہلکار نے ایرک گارنر کی گردن پر گھٹنا رکھا تھا جس پر اْس نے 11 دفعہ کہا تھا کہ ‘میں سانس نہیں لے سکتا’ جس کے بعد یہ جملہ پولیس تشدد کے خلاف نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اس واقعے کے پانچ سال بعد گزشتہ سال نیو یارک پولیس کے ایک اہلکار کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے معاملے پر شدید احتجاج کے بعد سیکرٹ سرویس کے اہلکاروں نے جمعے کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں زیرِ زمین بنکر میں منتقل کر دیا تھا۔