امریکی قونصل جنرل کیتھرین ہاڈا

   

حیدرآباد و تلنگانہ کی مہمان نوازی سے بے حد متاثر

روزنامہ سیاست کو انٹرویو

رتنا چوٹرانی
امریکی قونصل جنرل متعینہ حیدرآباد کیتھرین ہاڈا نے اپنی میعاد کے اختتام سے قبل روزنامہ سیاست کو شاید اپنے آخری سرکاری انٹرویو میں کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ انھوں نے بزنس سے لے کر کویزین تک، اور دونوں شہروں میں امریکی کونسلیٹ کی جانب سے مختلف این جی اوز، حکومتوں اور عوام کے ساتھ تعاون میں فروغ دیئے گئے مختلف پراجکٹس کے بارے میں بات کی ہے۔ سینئر اسٹاف رپورٹر رتنا چوٹرانی کو دیئے گئے انٹرویو کے اقتباسات پیش ہیں:
سب سے پہلے بزنس کے موضوع پر کیتھرین ہاڈا کا کہنا ہے کہ جب وہ بنگلورو یا حیدرآباد میں امریکی کمپنیوں سے بات کرتی ہیں جو اپنی تجارت کو وسعت دینا چاہتے ہیں وہ تلنگانہ کو منتخب کررہے ہیں۔ امریکہ کی بنگلورو میں کئی کمپنیاں ہیں لیکن جب توسیع کا معاملہ پیش آئے تو اکثر کا انتخاب تلنگانہ ہے کیونکہ یہ مہنگائی میں کم ہے، یہاں اچھا انفراسٹرکچر ہے، سرمایہ کاری کیلئے اچھا ماحول ہے، مختصر یہ کہ تلنگانہ اس معاملے میں اچھی پیشرفت کررہا ہے۔ بزنس میں آسانی کی درجہ بندی میں تلنگانہ سرفہرست ہے اور ورلڈ بینک نے انھیں متواتر اچھا رینک دیا ہے۔ دیانت داری کی بات ہے کہ یہ نئی ریاست ہے اور میں نے میرے یہاں تین سال میں انفراسٹرکچر میں کافی بہتری دیکھی ہے۔ مختصر مدت میں دیکھیں تو کچھ اتھل پتھل ہوسکتی ہے لیکن طویل مدت کیلئے اچھی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔
’’مہمان نوازی‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے پر جب پوچھا گیا کہ شاید آپ نے اُردو بول چال قابل لحاظ حد تک سیکھ لی ہوگی؟ مسز کیتھرین ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ انھوں نے بس یہی الفاظ سیکھے ہیں لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ حیدرآبادی تہذیب کی پہچان سے روشناس ہونے کا موقع ملا ہے۔ ’’درحقیقت، ٹینس چمپئن ثانیہ مرزا نے مجھے یہ الفاظ سکھائے۔ فلم اسٹارس، اعلیٰ عہدے دار، ٹیچرس، بزنس کی شخصیتیں اور اسکولس سب نے کھلے دل سے اُن کا خیرمقدم کیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مجھے یہاں آمد کے ابتدائی چند دنوں میں ہی ایک شادی کیلئے مدعو کئے جانے پر حیرت ہوئی تھی۔ یہ محض ایک مثال ہے کہ یہاں کی فیملیاں اور یہاں کے لوگ کس قدر وسعت قلبی رکھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ بہت اچھی میعاد گزری ہے۔‘‘
س : اُن کی دانست میں ہندوستان کو آگے بڑھنے کیلئے کیا چیزیں درکار ہیں؟ موجودہ طور پر امریکہ اور انڈیا کے درمیان ’تجارتی جنگ‘ چل رہی ہے حالانکہ دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات ہیں۔ آپ کس پیام کے ساتھ وطن واپس ہورہی ہیں اور ٹرمپ حکومت کو بتائیں گی یا ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو تعلقات بہتر بنانے کیلئے کیا کہنا چاہیں گی؟
ج : میں سمجھتی ہوں کہ ’تجارتی جنگ‘ کہنا کچھ زیادتی ہے۔ میرے خیال میں بعض تجارتی عدم اتفاق ہے اور اس کے باوجود پورے باہمی رشتے کو داؤ پر لگائے بغیر آگے بڑھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ متعدد مختلف سطحوں پر اب ہم پہلے سے کہیں زیادہ تعاون کررہے ہیں۔ ہم بار بار کہتے آئے ہیں کہ کوئی بھی موضوع لیجئے، ہمارے درمیان باقاعدہ بات چیت یا داخلی سطح پر غیررسمی نوعیت کی بات چیت ضرور ہوتی ہے اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور جب تعلقات میں اتنی گہرائی ہو تو بعض اوقات اختلافات پیدا ہونا معمول کی بات ہے۔ ہم دو عظیم اقوام ہیں۔ آپ آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہو۔ ہماری معیشت دنیا میں سب سے بڑی ہے۔ لہٰذا، ہمارا مفاد ایک دوسرے سے جڑا ہے۔ ہم ہندوستان کو اہم ملک اور جمہوریت مانتے ہیں۔ پہلے پسیفک ریجن کی بات ہوتی تھی، اب انڈو پسیفک ریجن کی بات ہورہی ہے۔
تین سال قبل جب میں حیدرآباد آئی تب ڈیفنس رشتوں پر بات چلی۔ انڈو۔ یو ایس ڈیفنس ریلیشن شپ کے تعلق سے میں اور میرے رفقاء نے ابتداء میں قیاس کیا کہ ہمارا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن میری میعاد کے دوران ہم نے یہاں تین بڑے ایرواسپیس یونٹس قائم کئے جو دنیا بھر کی کمپنیوں کے استعمال کے اجزاء تیار کررہے ہیں۔ مجھے Lockheed کمپنی کے دورے میں بتایا گیا کہ حیدرآباد میں ابتدائی طور پر 25 امریکی انجینئرس کام کرتے تھے اور اب ان کی تعداد گھٹ کر صرف ایک رہ گئی ہے کیونکہ یہاں مہارت کی سطح زبردست ہوچکی ہے اور وہ طیارہ کا پچھلا حصہ C1 30 جٹ تیار کرنے لگے ہیں او راب طیارے کے اُس حصے کے اجزاء صرف حیدرآباد میں تیار کئے جاتے ہیں۔ اب یہاں F16 ونگس تیار کرنے کی تجویز بھی ہے جو دنیا میں کہیں بھی ضرورت کی تکمیل کریں گے۔
گزشتہ چھ ماہ میں دو جہاز ویزاگ گئے۔ یہاں ایسٹرن نول کمانڈ کے ساتھ میٹنگس منعقد ہوئے اور مشقیں بھی کی گئیں۔ انھوں نے جہاز پر انگریزی کی طالبات کی خدمات سے استفادہ کیا تاکہ وہ جہاز کے خاتون عملہ کے ساتھ گفتگو کرسکیں اور یہ بات چیت اتنی بامعنی رہی کہ ہم سے اسٹوڈنٹس پوچھنے لگیں کہ وہ انڈین نیوی میں کس طرح شامل ہوسکتی ہیں۔ انڈین نیشنل گارڈز اور ہماری اسپیشل فورسیس کے درمیان حیدرآباد میں ایک ماہ تک مشترکہ مشقیں ہوئیں۔ انھوں نے شہر میں ایسی مشق بھی کی جو ہمیں آفت سماوی یا کوئی دہشت گردانہ حملے سے نمٹنے میں بہتر تعاون میں مدد دے گی۔ لہٰذا، ہماری سرگرمیاں مختلف زمروں میں منقسم ہیں۔ تجارتی عدم اتفاق ہوسکتا ہے، لیکن اس سے مجموعی باہمی تعلقات کو خطرہ لاحق ہے، ایسا اندیشہ غلط ہے۔ میں نہ رہوں گی مگر عنقریب حیدرآباد میں ڈیفنس ٹریڈ ریلیشن شپ کانفرنس ہوسکتی ہے۔
انسانوں کی غیرقانونی منتقلی پر بھی میری میعاد کے دوران ہمارا معقول تعاون رہا ہے۔ ہم نے ویمن ٹالی ووڈ ڈائریکٹرس اور وزارت بہبود خواتین و اطفال کے ساتھ ربط میں کام کرتے ہوئے پبلک سرویس کے طاقتور اعلانات کئے جو فلم تھیٹرس میں دکھائے گئے۔ اہم عنصر یہ ہے کہ متاثرہ افراد کی وجہ سے ہندوستان اور امریکہ دونوں پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ چنانچہ ٹریفکنگ کے موضوع پر تمام مقامی زبانوں میں بیداری مہم چلانا وقت کا تقاضہ ہے۔
س : جب آپ چلی جائیں تو اپنے شروع کردہ پراجکٹس کی پیشرفت کے بارے میں کیا اندازہ رکھتی ہیں؟ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کے بعد جانشین کو بھی ان پراجکٹس کے تعلق سے ایسی ہی دلچسپی رہے گی؟
ج : ہاں! ایک لحاظ سے آپ درست ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ خاتون ہونے کے ناطے آپ کو توجہ حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت ہے کہ ہم ہمیشہ ہی خواتین کو بااختیار بنانے کے پروگرام چلاتے ہیں کیونکہ یہ امریکہ کی ترجیح ہے۔ اینٹی ٹریفکنگ، مذہبی آزادی، انٹرپرینرشپ یہ امریکہ کی ترجیحات ہیں۔ میرے خیال میں میرا؍ میری جانشین کو زیادہ تر ایسی ہی دلچسپی رہے گی۔ ویسے ہمارے پاس درجنوں باصلاحیت افراد ہیں جو کونسلیٹ چلاتے ہیں۔ ان میں سے کئی مقامی لوگ ہیں جن میں سے بعض یہاں دس سال سے زیادہ مدت بھی گزار چکے ہیں۔ ہم اُن کے بغیر کام نہیں کرسکتے کیونکہ وہ مقامی زبان بولتے ہیں، مقامی ماحول جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے حالات بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے۔
س : ثقافتی اعتبار سے یہاں رہتے ہوئے آپ کو کس چیز میں دلچسپی پیدا ہوئی؟
مسز کیتھرین نے اپنا پوچم پلی کا لمبا چغہ دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ میرا پسندیدہ کپڑا ہے۔ ’’آج ہی میں نے یو ایس کونسلیٹ کی دیوار پر لگانے کیلئے آفیشل فوٹوگراف کھنچوائی اور مجھے ہینڈلوم والا کپڑا پہننا پڑا۔ پوچم پلی واقعی خوبصورت و تاریخی مقام ہے ۔ اب میں اس چغہ کو ویسٹرن لباس کے ساتھ ملا کر پہننا چاہتی ہوں۔
س : آپ نے تلنگانہ میں حالیہ انتخابات دیکھے ہیں۔ آپ کی رائے میں تلنگانہ کو بہتری کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
ج : میں قیاس اور اٹکلیں نہیں لگاؤں گی۔ میری رائے میں تلنگانہ کی ہمارے پاس جو قدر ہے وہ امریکی بزنس کو کھلے طور پر قبول کرنا ہے، جو زبردست مفاد کا معاملہ ہے۔
س : تلنگانہ کے کھانوں اور پکوان کے بارے میں آپ کو کیسا محسوس ہوا ہے؟
ج : (ہنستے ہوئے) آپ مجھے دیکھ سکتی ہو۔ میرا وزن بلاشبہ چند کیلو بڑھ چکا ہے، لیکن مجھے یہاں کا کھانا بہت پسند ہے۔ مجھے پکوان کے تمام اقسام بے حد پسند ہیں۔ نظام کویزین Cuisine، کوسٹل آندھرا کویزین… سب بہت اچھے ہیں۔ مجھے چٹ پٹا کھانا پسند ہے۔
س : آپ کو مرچ مصالحہ (چٹ پٹا پکوان) پسند ہے؟
ج : میرے شوہر اور میں چین میں رہ چکے ہیں جہاں وہ کافی اسپائسی کھانے کھاتے ہیں۔ Schezwan ایک قسم کی چینی کویزین ہے جسے کھاتے ہوئے غیرچینی لوگوں کے ڈائننگ ٹیبل پر ٹشو پیپر کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جو اس تیکھے، مصالحہ دار، چٹ پٹے چینی کویزین کا ثبوت ہے۔ تلنگانہ کا چٹ پٹا پن مختلف ہے مگر اچھا ہے۔
س : حیدرآباد میں آپ کی پسندیدہ غذا کیا ہے؟
ج : بریانی۔ مجھے عثمانیہ بسکٹس اور نمرہ کیفے کے نمکین و میٹھے ذائقہ والے بسکٹس بہت پسند ہیں۔ یہ اچھا امتزاج ہے۔ اور ہاں! مجھے چائے بھی پسند ہے۔