امریکی ویزا ریاکٹ

   

کتنے ہی گلے تھے زبان پہ ہماری
یہ الگ بات ہے کہ سننے والا نہ تھا
امریکی ویزا ریاکٹ
امریکہ میں ہندوستانی طلباء خاص کر تلنگانہ اور آندھراپردیش کے طلباء اپنی صلاحیتوں اور تعلیمی ترقی میں سرفہرست ہونے کی وجہ سے اہم مقام رکھتے ہیں۔ حکومت امریکہ، طلباء کے لئے ویزا کی سہولت فراہم کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع دیتے آرہی ہے لیکن جب اسکام، جعلسازی اور دھوکہ دہی کے ذریعہ امریکہ میں داخل ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوجائے تو بارڈر سیکوریٹی فورس اور اس کے متعلقہ ادارے چوکس ہوجاتے ہیں۔ امریکی ویزا کا حصول ایک مشکل ترین مرحلہ ہے جو طلباء تمام قواعد و شرائط کی تکمیل کرتے ہیں اور ویزا قونصل کے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتے ہیں تو انہیں امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے ویزا جاری کئے جاتے ہیں جس کو F-I ویزا کہا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں امیگریشن اسکام سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی منکشف ہوئی ہے کہ خود امریکہ کے ادارہ امیگریشن اینڈ کسٹمس انفورسمنٹ نے ڈیٹرائیٹ میں ایک فرضی یونیورسٹی قائم کی تاکہ مبینہ طور پر اس یونیورسٹی میں داخلہ لے کر خود کو امریکہ میں رہنے کا انتظام کرنے والے مشتبہ طلباء کا پتہ چلایا جائے۔ اس ادارہ کے منصوبے کے مطابق ہی یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلباء کو ویزا دھوکہ دہی کیس میں ماخوذ کیا گیا۔ یہ واقعہ دو طرح کی خرابیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ایک خرابی تو یہ ہیکہ خود امریکہ کے اس ادارہ نے فرضی یونیورسٹی قائم کرکے طلباء کو گمراہ کیا اور جال پھیلا کر انہیں گرفتار کرنے کا بہانہ تیار کرلیا۔ دوسری طرف ویزا اسکام کے ذریعہ ڈالر کمانے والے ریاکٹ کو بے نقاب کرلیا گیا۔ اس طرح کی مشق میں سارا نقصان تو ان طلباء کا ہوا جو ہر دو جانب دھوکہ دہی کا شکار ہوئے ہیں۔ آخر امریکہ کے اس ادارہ ICE ہوم لینڈ سیکوریٹی انوسٹی گیشن نے 2015ء میں فرضی یونیورسٹی آف فرنگسٹن قائم کیوں کی اور اس کو خفیہ طور پر چلاتے ہوئے طلباء کو گمراہ کیوں کیا۔ طلباء نے بھی امریکہ میں داخل ہونے کی لالچ اور اندھے پن کا شکار ہوکر ایک ایسی یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کیا جہاں کوئی عملہ ہی نہیں، جہاں کوئی تعلیمی شعبہ ہی نہیں تھا، جہاں کوئی نصابی مواد پایا گیا اور نہ ہی باقاعدہ کلاس بھی ہوتے تھے۔ اس یونیورسٹی میں کوئی تعلیمی سرگرمی بھی نہیں تھی۔ طلباء کو ایسی یونیورسٹی کے بارے میں ازخود متعلقہ حکام سے شکایت کرنی تھی لیکن سارا معاملہ امریکی ویزا اور ویزا اسکام میں ملوث افراد کو پکڑنے کیلئے پھیلائے گئے امیگریشن اینڈ کسٹمس انفورسمنٹ کے جال نے یہ واضح کردیا کہ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے خواہاں طلباء کو اپنے مستقبل کو تباہ کرنا پڑا ہے۔ امریکہ اس بات کو تسلیم کرتا ہیکہ بین الاقوامی طلباء اس کیلئے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ خود صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں کئی مرتبہ تسلیم کیا ہیکہ بیرونی طلباء کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے امریکہ کو استفادہ کرنا ہے۔ جو طلباء امریکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں ویزا کی سہولتیں دینے کے علاوہ مستقل رہائش کی بھی پیشکش کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کیس سے ظاہر ہوتا ہیکہ امریکہ نے دانستہ طور پر بین الاقوامی طلباء کو نشانہ بناتے ہوئے ایک خوف کا ماحول یپدا کرنا چاہا۔ طلباء سے ویزا پروگرام کے ذریعہ استحصال کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ اس کیس کے اٹارنی کا بھی یہی کہنا ہیکہ بین الاقوامی طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ کیا گیا ہے۔ طلباء کو پہلے پے ٹو اسٹے کی ترغیب دی جاکر انہیں ہمہ وقتی طلباء کی حیثیت سے نام درج کروانے کا موقع دیا گیا۔ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا ایک معمول کا عمل ہے۔ ہر ایک بیرونی شہری جو یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے اسے ٹیوشن فیس ادا کرنی ہوتی ہے اور اپنی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اکیڈیمی عمل کو پورا کرنا ہوتا ہے مگر یہاں تو سارا معاملہ ہی فرضی تھا پے ٹو اسٹے اسکیم کے ذریعہ طلباء کے ویزا موقف کو برقرار رکھا جانا بھی تعجب خیز ہے بہرحال تلنگانہ اور آندھراپردیش کے طلباء اس خفیہ فرضی یونیورسٹی کی زد میں آگئے ہیں تو ان کے مستقبل کو تباہ کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ تلنگانہ کے ٹی آر ایس لیڈر کے ٹی راماراؤ نے اس مسئلہ پر امریکی قونصل جنرل متعینہ حیدرآباد سے نمائندگی کی ہے تو انہیں اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ گرفتار شدہ طلباء کا مستقبل تباہ نہ ہونے پائے اور اس طرح کی فرضی یونیورسٹیوں کے قیام کے ذریعہ بین الاقوامی طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
مودی حکومت میں مسلمانوں کا استحصال
مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت میں وہ حلیف پارٹیاں بھی شامل ہیں جو عام انتخابات میں مسلم ووٹوں کو حاصل کرکے کامیاب ہوئی ہیں۔ آج بھی بی جے پی کی حلیف پارٹیاں حکمراں پارٹی کی مخالف مسلم پالیسیوں پر خاموشی تماشائی بنی ہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس اور صدمہ ہوتا ہیکہ مرکزی حکومت نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ حکومت کا یہ دستوری فریضہ ہوتا ہیکہ وہ ہندوستانی شہریوں کے ساتھ یکساں معاملہ کرے مگر مودی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ہے وہ افسوسناک ہے۔ عبوری بجٹ میں ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی ذکر تک نہیں کیا گیا۔ ان کی فلاح و بہبود کا زبانی دم بھرنے والی مودی حکومت نے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی بلکہ مولانا آزاد فاونڈیشن کا بجٹ بھی 134 کروڑ روپئے سے گھٹا کر صرف 81 کروڑ روپئے کردیا ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل ہونے والے بجٹ کو گھٹا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی حکومت تعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔ عام انتخابات 2019ء کے پیش نظر حکومت نے ملک کے دیگر طبقات کے ساتھ فراخدلانہ رویہ اختیار کیا اور اقلیتوں کو اس ملک کا دوسرا یا تیسرے درجہ کا شہری سمجھا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ مسلمانوں کیساتھ ہونے والے استحصال کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ لہٰذا ہندوستانی مسلمانوں کو شعوری طور پر بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور عام انتخابات میں ایسی پارٹیوں کیلئے اپنے ووٹ کا استعمال نہ کریں جو آگے چل کر بی جے پی اور فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے انہیں ہر محاذ پر محرومی کا شکار بنادے۔ حکومت کی نیت کیا ہے یہ واضح ہوچکا ہے تو مسلمانان ہند کو اپنی آنکھیں کھول دینی ہوں گی ورنہ وہ فرقہ پرستوں کے منصوبوں کا آسانی سے شکار ہوتے رہیں گے۔