امن وقانون کے رکھوالے کیاانسان دوست ہیں؟

   

سی اے اے ،این آر سی ،این پی آر جیسے سیاہ قوانین کی جابرانہ انداز سے نفاذ کی مہم نے حکومت کے خلاف ملک کے سارے شہریوں کو متحد کردیا ہے ،ملک دشمن طاقتیں چاہتی ہیں کہ شہریوں کے درمیان نفرت و عداوت کی فضا ءبنی رہے اس کے لئے آر ایس ایس کی برسوں سے منصوبہ بند کوششیں جاری رہیں ،موجودہ حکومت نےاکثریت کے بل بوتے پر وقفہ وقفہ سے ایسے قوانین منظور کروالئے ہیںجو مسلم شہریوں کے خلاف تھے ، اس کے باوجود ملک کے سنجیدہ باوقار سیکولر غیر مسلم عوام و خواص نے اس کی بھرپور مخالفت کی ، لیکن حکومت کبھی اس کو خاطر میں نہیں لائی ، حالیہ پارلیمنٹ الیکشن میں کامیابی کے بعد تو جیسے حکومت کے کارندوں کو سرخاب کے پر لگ گئے ہیںکہ وہ نفرت و عداوت ، ظلم و ستم کی فضاء ہموار کرکے اس میں اُڑنے لگے ہیں نوبت بایں جارسید کہ اب جو قوانین لائے جارہے ہیں اس میں صرف مسلمان ہی نشانہ پر نہیں ہیں بلکہ قوی امکان اس بات کا ہے کہ ملک کے اکثرطبقات اس کی زد میںآجائیں گے ، یہی وہ خطرہ ہے جس نے سارے شہریوں کو متحد کردیا ہے اور وہ ان قوانین کے خلاف ایک آواز ہوگئے ہیں ، دستور و قانون بھی احتجاج کا حق دیتا ہے ، جمہوری ملک میں ظلم ہورہا ہو اس کے سیکولر ڈھانچے کو منہدم کرنے کی کوشش کی جارہی ہو ،دستور و آئین کے ساتھ کھلواڑ کیاجارہا ہو تو ملک کے شہری تماشائی بنے نہیں رہ سکتے ،ستم یہ ہے کہ حکومت کے بعض کارندے اور کچھ ہمنوا وہ ہیں جوغیر جمہوری بلکہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی زبان استعمال کرنے لگے ہیں ، سیاہ قوانین کی مخالفت کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں ،دانشوران ملک و قوم کا احساس یہ ہے کہ نظام سیاست میںابتری کی وجہ دراصل مجرمانہ مزاج اور ریکار ڈ رکھنے والوں کا سیاست میں داخلہ ہے ، خاص طور پر بی جے پی کے کئی قائدین کے دامن مجرمانہ ریکارڈ کی وجہ داغدار ہیں ، کئی ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی ایسے ہیں جن پر مقدمات چل رہے ہیں ، ملک میں پیار و محبت ،امن و آشتی ، بھائی چارہ ، امن و سکون ، عدل و انصاف کے بجائے قتل و غارت گری ،اغواء و عصمت ریزی ، معصوم کمزور شہریوں پر بلاوجہ ظلم ڈھانے کے واقعات میں روزبروز اضافہ دیکھا جارہا ہے ، اس پر حکومت کی نہ صرف چشم پوشی بلکہ مجرموں کی پشت پناہی سے اس کو مزید بڑھاوا مل رہا ہے ، سپریم کورٹ نے بھی مختلف مواقع پر بھرپور کوشش کی کہ نظام سیاست کو مجرمانہ سرگرمیوں سے پاک وصاف رکھا جائے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب کہ جرائم کے مرتکبین کوانتخابات میں حصہ لینے پر روک لگے ، مجرمانہ کردار رکھنے والے چونکہ دن کے اُجالے میں آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اس لئے ان کے ہاں دولت کی ریل پیل رہتی ہے ،اس کے سہارے وہ اپنے لئے سیاست میں داخلے کی راہ ہموا ر کرلیتے ہیںاور پارٹی ہائی کمان پر بھی وہ اسی راہ سے اثر انداز ہوجاتے ہیں، سسٹم کی یہی خرابی ہے جس سے ملک سیکولر دھارے سے ہٹ کر مخصوص غیر جمہوری افکار و نظریات کی ڈگر پر چل پڑا ہے ، جبر و ظلم سے غیر جمہوری قوانین کی منظوری اور ان کے نفاذ کے خلاف احتجا ج کرنا اور کمزور طبقات پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا کوئی دہشت گردی نہیں ہے ،ہاںالبتہ خلاف دستور اور خلاف انسانیت قوانین نافذ کرنے کی مہم وہ بھی جمہوری ملک میں اس کو دہشت گردی ہی کہا جائے گا،ان قوانین کے حامی کئی ایک حکومت کے لیڈرس ہیں جو ا ن قوانین کے مخالفین کے خلاف اشتعال انگیزبیانات دیتے رہے ہیں، ان کے بیانات سے کھلم کھلا یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہمنوائوں کو بھڑکا رہے ہیں اور شرو فساد برپاکرنے کی راہ دکھارہے ہیں چنانچہ نتیجہ سامنے ہے کئی دن سے پرامن احتجاج کو سبوتاج کرنے کی شرپسندانہ کارروائیاں جاری ہیں ،

مختلف جامعات کے طلباء و طالبات اور مردوں کے ساتھ بڑی تعداد میں بیٹیاں ،بہنیں ، مائیں بلکہ دادیاں ،نانیاں بھی پرامن احتجاج میں شریک ہیں ،غنڈہ عناصر کی غنڈہ گرد ی اپنی جگہ، امن و آمان کے محافظ بھی غنڈہ گردی مچائیں اور غنڈہ عناصر کی پشت پناہی کرنے لگیں تو پھر ملک کاسیکولر ڈھانچہ کیسے برقرار رہ سکے گااور جمہوری ملک اور جمہوری اقدار کی حفاظت کیونکر ممکن ہوسکے گی ،ایسے ویڈیوکلپس سوشیل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیںجس سے پولیس پر خود کئی ایک سوالیہ نشانات لگ جاتے ہیں کیونکہ پولیس خود بربریت ڈھاتے ہوئے اور بعض سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچاتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے،بعض ویڈیوز وہ بھی ہیں جن میں پولیس نہ صرف خود پتھرائو کررہی ہے بلکہ پتھرائو کرنے والوں کو اکسارہی ہے اور اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دہلی پر غنڈہ عناصر کا راج ہے ملک میںبڑی افراتفری مچی ہے اورملک کی موجودہ صورتحال بہت ابتری کا شکار ہے اس وقت دہلی غنڈہ عناصر کی بھڑکائی ہوئی فساد کی آگ میں جل رہی ہے ،کئی ایک موت کی آغوش میں پہنچ چکے ہیں اور کئی ایک شدید زخمی ہیں،ہمارے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ فسادیوں کو کپڑوں سے پہچانا جائے گا اس کے بعد کچھ فسادی عناصر مسلم طرز کا لباس جیسے برقعہ وغیرہ پہن کر فساد مچانے کی کوشش کررہے تھے جو گرفتار کرلیئے گئے ہیں،

موجودہ فساد میں بعض صحافی بھی متاثر ہوئے ہیں اروند گوناشیکھر اور سوربھ شکلاکو فسادیوںکے ہجوم نے بری طرح مار پیٹ کی ان کا کہنا ہے کہ فسادیوں نے اس وقت مار پیٹ بند کی جب انہیں ہمارے ہندوہونے کا اندازہ ہوا ، ٹائمزآف انڈیا کے فوٹو گرافر آننداچٹوپادھیائے کو فسادیوں کے گروپ نے گھیر لیا اور ان کے مذہب کی شناخت کیلئے پتلون اتار کر برہنہ کرنے کی دھمکی دی ،ایک اور رپورٹر جیتالالوانی نے بتایا کہ ہجومیوں کے ہاتھوں میں دھاتی سلاخوں اور لاٹھیوں سے بنائی گئی خاص انداز کی اسٹکس تھیں،حتی کہ ایک شخص تلوار لہرارہا تھا،وہ سبھی جنونی انداز میں جئے شری رام کے نعرے لگارہے تھے ،اخباری اطلاع کے مطابق مسجدکو آگ لگاکر ا س کے مینار پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیااور ایک مسجد اور درگاہ کو بھی نذر آتش کردیا گیا ،کون فسادی ہے اور کون دہشت پھیلارہا ہے کیا یہ سارے شواہد اس کی شناخت کیلئے کافی نہیں ہیں؟اور اب جو خبریں آرہی ہیں اور جو تصاویر ،ویڈیوز وائرل ہورہے ہیں اس میں تشدد برپا کرنے اور دہشت پھیلانے والے ہندو شرپسند عناصر کے ساتھ خود پولیس بھی شریک ہے جبکہ وہ انسان دوست ہونے کا تمغہ رکھنے کی دعویدار ہے،کیا یہی انسان دوستی ہے ؟اس کے باوجود مرکزی وزیر داخلہ نے دہلی پولیس پر تنقید کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ کشیدگی دور کرنے کیلئےکتنی فورس درکار ہے وہ (پولیس)بخوبی انتظام کرسکتی ہے ،اس دوران امریکہ کے صدر جو اس وقت ہندوستان کے دورہ پر آئے ہوئے تھے انہوںنے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی بات چیت میں دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقوں پر بطور خا ص غور کیا گیا ہے ، انہوں نے زور دے کر کہا کہ مودی حکومت نے دہشت گردی کی لعنت کو روکنے کا تہیہ کرلیاہے، دوران گفتگو ہندوستان میں مذہبی آزادی پر بھی بات چیت ہوئی ہے ، اب سوال یہ ہے کہ ملک کا اور خاص طور پر دہلی کا اس وقت جو منظر نامہ ہے کیا وہ اس کی تصدیق کررہا ہے ؟ اس کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے خوش کن بیانات دینے والے امریکی صدراور وزیر اعظم مودی اور اس طرح کے زبانی دعوے کرنے والے اپنے مقصد میں سنجیدہ ہیں اور واقعی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ’’اور زمین میں بعد اس کے کہ اس کی اصلاح ودرستگی کردی گئی ہے فساد مت پھیلائو ‘‘(الاعراف /۵۶)۔ملک کی اس صورتحال میں سارے سیکولر خواص و عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک کا سیکولر کردار بچانے اور دستور کی حفاظت کیلئے جاری جدوجہد کو برقرار رکھنا چاہئے ، اس جدوجہد میں فسادی عناصر رخنہ اندازی پیدا کرسکتے ہیں جیسا کہ دہلی اور ملک کے بعض علاقوں میں یہ کوششیں جاری ہیں ان فسادیوں پر کڑی نظر رکھنے اور ہندو،مسلم ،دلت ،سکھ ،عیسائی اتحاد کو مزید مستحکم کرنے اور مقصد کے حصول کیلئے سینہ سپر ہوجانے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کی زمین دہشت گردی و فساد سے پاک ہوجائے ،ملک کی سالمیت ،اس کے جمہوری کردار اور دستوری و انسانی اقدارکے مخالفین کو سبق ملے یا تو وہ اپنے غیر جمہوری عزائم و ارادوں سے بازآجائیں یا پھر بھارت کوان سے چھٹکارا ملے ،احتجاج اسباب کے درجہ کی چیز ہے فقط احتجاج ہی منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتا ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص طور پر مسلمان پہلے سے زیادہ رجوع الی اللہ ہوجائیں، مساجد کو ایسے آباد کریں کہ وہ تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگیں،اعتقادات ،عبادات و معاملات اور اخلاق سے اپنا سچا پکا مسلمان ہونا ظاہر کریں ،اکثر غیر مسلم برادران وطن بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے رب کے احکام کی تابعداری کریں گے اور سچے دل سے توبہ و استغفار کرکے اپنے رب کو منائیں گے ،ظلم کے خاتمہ اور امن و آمان کی بحالی کیلئے دعائوں کا خاص اہتمام کریں گے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی غیبی نصرت شامل حال ہوگی ، ملک میں فساد تھمے گا اور عجب نہیں کہ ظالم حکمران راہ راست پر آجائیں یا پھر تخت و تاج سے وہ بے دخل کردیئے جائیں۔اسبابی نقطہ نظر سے کئے جانے والے پرامن احتجاج کو ثمرآور اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے پوری ملت اسلامیہ کو ایمان و تقویٰ کا ایک عملی پیکر بن جانے کی ضرورت ہے ۔