انتخابات اور سیاسی قائدین

   

ملک میں انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ آئندہ چند دنوںمیںپرچہ نامزدگیوںکا ادخال شروع ہوگا ۔ ان کی جانچ پڑتال ہوگی ۔ ان سے دستبرداری کا موقع دیا جائیگا اور پھر انتخابات کیلئے مہم شروع کردی جائے گی ۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی قائدین اور جماعتوں کی جانب سے بیہودہ زبان کا استعمال ان دنوںہندوستان میںعام ہوگیا ہے ۔ ایسے ریمارکس کئے جاتے ہیں جو انتہائی غیر شائستہ ہوتے ہیں۔ کسی طبقہ کی ہتک کی جاتی ہے تو کسی فرقہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کسی کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کسی کے خاندانی پس منظر پر تبصرے اور ریمارکس کئے جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ انتخابات کے دوران عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے سیاسی قائدین اپنا آپا کھوبیٹھتے ہیں ۔ جذبات سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور ایسے ریمارکس اور تبصرے کرجاتے ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیںہوتی اور جومہذب سماج میں ناشائستہ کہے جاسکتے ہیں۔ ان سیاسی قائدین کو الیکشن کمیشن سے نوٹس کی بھی اجرائی عمل میںلائی جاتی ہے ۔ ان سے جواب طلب کیا جاتاہے تاہم الیکشن کمیشن کی کارروائیاں اس وقت تک شروع نہیں ہوتیں جب تک الیکشن کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا ۔ سب سے زیادہ کچھ ہوتا ہے تو محض اتنا ہی کہ نامناسب ریمارکس کرنے والے لیڈر کر چند گھنٹوں کیلئے انتخابی مہم میںحصہ لینے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔ یہ کوئی موثر کارروائی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس کے نتیجہ میں سیاسی قائدین بے لگام ہورہے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی کوشش میں ایسے ریمارکس کرجا رہے ہیں جن کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ ریاست یا بالواسطہ طور پر اس میںمذہب کا بھی حوالہ دینے سے کچھ قائدین گریز نہیں کرتے ۔ خواتین کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف ناشائستہ ریمارکس کرنے میں بھی انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا ۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کو موثر کارروائی کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے دورانایسی کارروائیوں پر کوئی خاص توجہ دینے کے موقف میں ہرگز نہیں ہوتا ۔
اب جبکہ ہندوستان میں انتخابی شروع ہی ہوا ہے ۔ ابھی اس میں درکار تیزی یا شدت پیدا نہیں ہوئی ہے لیکن ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس اور تبصروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ سیاسی قائدین کے سامنے محض اپنی کامیابی کا نشانہ رہتا ہے ۔ وہ کسی بھی بات کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہوتے ۔وہ اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ کامیاب ہوجائیں۔ اس کیلئے قوانین اور روایات کی پاسداری کی بھی انہیں کوئی فکر نہیں رہتی ۔ ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں جب جذبات میں بہتے ہوئے سیاسی قائدین نے ایک دوسرے کے خلاف کچھ اس طرح کے ریمارکس کئے ہیں جس پر انہیںشرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر معذرت خواہی بھی کرنی پڑی ۔ کئی قائدین تو ایسے ہیں جو جان بوجھ کر اس طرح کے ریمارکس کرتے ہیں۔ انہیں صرف سیاسی فائدہ سے مطلب ہوتا ہے ۔ وہ بعد میں الیکشن کمیشن کی نوٹسوں کا جواب دینے سے گریز نہیںکرتے اور ضرورت پڑنے پر معذرت خواہی کرتے ہوئے بری ہوجاتے ہیں۔ انہیںپتہ ہوتا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں تو وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس روایت کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ الیکشن کمیشن میں ایسا کوئی علیحدہ مکانزم نظر نہیںآتا جو اس طرح کے واقعات پر از خود نوٹ لیتے ہوئے چند گھنٹوں کے اندر کارروائی کرے اور ضرورت سے زیادہ اشتعال انگیزی اور نازیبا ریمارکس کرنے والے امیدواروں پر ہی امتناع عائد کردیا جائے اور ان کی مہم روک دی جائے ۔
اب جبکہ انتخابی عمل میںبتدریج تیزی اورشدت پیدا ہونے والی ہے ایسے میںتمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ جذباتیت میں بہتے ہوئے بیہودہ اور نازیبا ریمارکس کرنے سے گریز کریں۔ سیاسی اختلاف کو سیاسی اختلاف تک ہی محدود رکھا جائے ۔ شخصی تنقیدوں سے گریز کیا جائے ۔ مخالفت کے اصولوں کو پامال نہ کیا جائے اور تنقیدوں کی جو حد ہوتی ہے اس کو پھلانگنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ عوام پر ایک اچھی چھاپ چھوڑتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ حدود کو ہی پھلانگا جائے ۔ سبھی جماعتوںاور قائدین کو اس بار ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہئے ۔