انتخابات ‘ بی جے پی اور میڈیا

   

پوشیدہ حقائق کا سراپا ہوں میں
معلوم نہیں ہے ابھی کیا کیا ہوں میں
پارلیمانی انتخابات کے عمل میں تیزی پیدا ہونے لگی ہے ۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی جانب سے عوام سے رجوع ہونے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ کچھ جماعتوں نے ان منصوبوںپر عمل بھی شروع کردیا ہے ۔ عوام کے سامنے بہترین تصویر پیش کرتے ہوئے تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اکثر سیاسی جماعتیں ایسا کرتی ہیں۔ انہیں داخلی طور پر بے شمار مسائل اور پریشانیاںبھی لاحق رہتی ہیں۔ ناراضگی اور بغاوت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتیں ان کو عوام کی نظروں سے دور رکھتے ہوئے سب کچھ ٹھیک ہے والا دعوی ٹھوکتی ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو اس معاملے میں بی جے پی کو نہ صرف اپنی خود کی پارٹی مشنری کی سہولت حاصل ہے بلکہ اس معاملے میں اسے ملک کے تقریبا تمام گودی میڈیا چینلس کی خدمات بھی دستیاب ہیں۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ گودی میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس بھی بی جے پی کارکنوں کی طرح کام کرتے ہوئے صورتحال کو حقیقی معنوں میں عوام تک پہونچانے کی بجائے تصویر کا وہ رخ عوام کے سامنے پیش کرنے میں لگے ہیں جو حقیقت میں کہیں ہے ہی نہیں۔ بی جے پی نے اب کی بار 400 پار کی نعرہ دیتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے لیکن کئی حلقوں اور گوشوںکا تاثر ہے کہ بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔ ابھی سے اسے جس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کیلئے سادہ اکثریت کا حصول بھی آسان نہیں رہے گا ۔ بی جے پی کو جہاں عوامی ناراضگی کا غیر متوقع طور پر سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہیں اسے داخلی طور پر بھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔ خاص طور پر شمالی ہند میںامکانی نقصان کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے جو جنوب پر توجہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے وہ بھی متاثر ہونے لگی ہے کیونکہ جنوب میں بی جے پی کیلئے حالات مشکل ہوگئے ہیں اور پارٹی کو مخالفین سے زیادہ خودا پنے ہی قائدین سے زیادہ مسائل درپیش ہونے لگے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی کو اپنے ہی کئی قائدین کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
کانگریس کا اگر کوئی لیڈر یا رکن پارلیمنٹ یا سابق رکن پارلیمنٹ یا کوئی اور بھی اگر پارٹی کے خلاف بیان بازی کرتا ہے یا استعفی پیش کرتا ہے تو اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس پر کئی کئی مرتبہ مباحث کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر ایک سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب بات بی جے پی کی آتی ہے تو ہندوتوا کی چمپئن کے طور پر پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جاتا ۔ میڈیا کی جانب سے کرناٹک میں بی جے پی کو جو داخلی حالات درپیش ان پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو ٹکٹوں کی تقسیم پر ناراضگی کا سامنا ہے ۔ کئی مقامات پر سینئر قائدین پر الزام عائد کئے جا رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ الاٹ کروالئے ہیں اور حقیقی کارکنوں کو نظرا نداز کردیا گیا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کے سب سے قد آور لیڈر بی ایس یدیورپا پر بھی اقربا پروری کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔ سابق وزیر کے ایشورپا خود آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ کئی مقامات پر دعویدار قائدین کو موقع دئے بغیر اچانک ہی غیر متوقع لیڈر کو ٹکٹ دینے پر پارٹی حلقوںمیں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ سابق مرکزی وزیر اننت ہیگڈے کو ٹکٹ سے محروم کردیا گیا ہے اور اس پر بھی کیڈر میں مایوسی دکھائی دے رہی ہے ۔ اس کے علاوہ علاوہ کئی مقامات پر پارٹی ٹکٹ سے محروم قائدین بحیثیت آزاد امیدوار میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیںاور یہی وہ صورتحال ہے جو بی جے پی کیلئے مشکل کا باعث ہے ۔
اسی طرح اترپردیش میں بی جے پی نے ورون گاندھی کو ٹکٹ سے محروم کردیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ پیلی بھیت حلقہ سے بحیثیت آزاد امیدوار مقابلہ کرسکتے ہیں۔ حالانکہ پارٹی نے ان کی والدہ منیکا گاندھی کو ٹکٹ دیا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ منیکا گاندھی بھی پارٹی ٹکٹ قبول کرنے کی بجائے اپنے فرزند کے ساتھ آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ ان دو حلقوں کے اثرات دیگر کئی حلقوں پر بھی ہوسکتے ہیں۔ تلنگانہ میں بھی بی جے پی انتخابی موڈ میں نظر نہیں آ رہی ہے ۔ اس کے باوجود میڈیا بی جے پی کے تعلق سے حقائق کو عوام میں لانے کی بجائے اس کی پردہ پوشی میںمصروف دکھائی دے رہا ہے جو پیشہ ورانہ بد دیانتی ہے ۔