انتخابات ‘ مودی کے شخصی حملے

   

اگر سوال کا تم کو جواب مل نہ سکا
تو بدکلامی پہ کیوں دوست تم اُتر آئے
انتخابات ‘ مودی کے شخصی حملے
ملک میں لوک سبھا انتخابات کا عمل اب اپنے اختتام کی سمت بڑھ رہا ہے ۔ بڑی تیزی کے ساتھ پانچ مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور انتہائی شدت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم چلائی گئی ہے ۔ ہر جماعت اور اس کے قائدین نے رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کی زیادہ سے زیادہ تائید حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ ہر کسی نے یہ کوشش کی کہ رائے دہندے اس کے جھانسے میںآجائیںاور ان کے ووٹوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جاسکے ۔ تاہم اس بار ہندوستان کے انتخابات میں ایک بات خاص طور پر نوٹ کی جانے والی رہی اور وہ یہ کہ ملک کی برسر اقتدار جماعت نے انتخابات کو اپنی کامیابیوں کی بنیاد پر نہیںلڑا ہے ۔ عوام کے سامنے اپنی فلاحی اسکیمات اور کئی پروگرامس جو اس نے شروع کرنے کا دعوی کیا تھا ان کے نام پر ووٹ مانگنے سے گریز کیا گیا ہے ۔ صرف اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یا اس کی ناکامیوں کوگنواتے ہوئے یا پھر قوم پرستی کے نام پر ووٹ مانگنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ نہ نوٹ بندی کے نام پر ووٹ مانگا گیا اور نہ جی ایس ٹی کے نام پر تاجروں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ نہ تو اسٹارٹ اپ انڈیا کے نام پر ووٹ مانگے گئے اور نہ ہی میک ان انڈیا کا کوئی نعرہ سنائی دیا ۔ ہاںاگر کچھ سنائی دیا تو شخصی اور رکیک حملے سنائی دئے ۔ ملک کی خدمت کرتے ہوئے جان گنوا دینے والے شہیدوں کے نام پر کہیں ووٹ مانگا گیا تو کہیںملک کی قیادت کرتے ہوئے جان گنوانے والوںکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی نے شخصی تنقیدوں پر زیادہ انحصار کیا ہے ۔ انہوں نے ہر ریاست کے قائدین کو نشانہ بنایا ہے اور سب سے زیادہ ان کی تنقیدوں کے نشانہ پر کانگریس پارٹی اور اس کے قائدین رہے ہیں۔ کہیںراجیو گاندھی کو کرپٹ نمبر ایک قرار دیا گیا تو کہیں یہ بھی کہا گیا کہ اس نے ملک کے جہازوں کو اپنی ٹیکسی کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ کہیں کانگریس کو منفی طاقت قرار دیا گیا ہے تو کہیںاس سے بھی گھٹیا ریمارکس کئے گئے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق اور اقدار وغیرہ کو حد درجہ پامال کردیا گیا ہے ۔
اب جبکہ ملک میں انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے قریب پہونچ رہا ہے ۔ پانچ مراحل میں ملک کے رائے دہندے اکثریتی نشستوں کیلئے ووٹ ڈال چکے ہیں اور اب صرف دو مراحل کی رائے دہی باقی رہ گئی ہے اب بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور خاص طور پر نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے مسلسل شخصی حملوں کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔ کہیں بھی گذشتہ پانچ سال میں کئے گئے کاموں کا تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ نہ یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ مودی نے گذشتہ 60 مہینوں کے دوران کیا کارنامے انجام دئے ہیں۔ کوئی بھی پارٹی ایسی نہیں ہے جس نے مودی یا ان کے ساتھیوں سے یہ سوال نہ کیا ہو لیکن ان تمام کو جواب میں صرف گالیاںدی جا رہی ہیں۔ ان کے سوالوں کا کوئی جواب دینے تیار نہیں ہے ۔ نہ مودی ایسا کرتے ہیں ۔ نہ امیت شاہ جواب دینے تیار ہیں اور نہ دوسرے قائدین ایسا کچھ کر رہے ہیں۔ کہیں اگر کچھ بن نہ پائے تو صرف بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگا کر عوام کو گمراہ اور بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر شخصی حملے کرنے میں بی جے پی کے قائدین ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی مسلسل اپوزیشن قائدین کو شخصی تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بہار اسمبلی انتخابات میں بھی انہوں نے نتیش کمار کے ڈی این اے پر سوال کیا تھا جس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا تھا ۔
ملک کے رائے دہندوںکو چاہئے کہ وہ ایسے قائدین کو اپنے ووٹ کے ذریعہ سبق سکھانے کی کوشش کریں جو اس ملک کی روایات و اقدار کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے ۔ وہ صرف اقتدار حاصل کرتے ہوئے انے عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک گرسکتے ہیں۔ اقتدار کے لالچ میں ملک کے جلیل القدر عہدوں کے وقار کو تک پامال کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو ہندوستانی جمہوریت میں شائد پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے ۔ اس سے قبل ملک میںانتخابی مہم اس حد تک نیچے کبھی نہیں گئی تھی ۔ اب جبکہ انتخابات کا عمل مکمل بھی ہونے والا ہے ایسے میںخود سیاسی جماعتوں کو اور ایسا کرنے والوںکو اپنے گریبان میں جھانکنا اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ۔