اندرا گاندھی کی طرح کیا نریندر مودی کو شکست ہوگی؟

   

رامچندر گوہا
ہمارے ملک میں فی الوقت 18 ویں عام انتخابات ہورہے ہیں، ہندوستانی باشندوں نے عام انتخابات 2024 کیلئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال شروع کردیا ہے۔ 19 اپریل کو پہلے مرحلہ کی رائے دہی کا انعقاد بھی عمل میں آچکا ہے جس میں 100 سے زائد حلقوں کے امیدواروں کے انتخابی مقدر کا فیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند ہوگیا۔ آپ کو بتادیں کہ ہمارے ملک میں پہلے لوک سبھا انتخابات کا 1952 میں انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اگر ہم پچھلے 17 پارلیمانی حلقوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں دو انتخابات خاص طور پر بہت زیادہ اہم تھے۔ پہلا اہم الیکشن 1952 کو ہوئے ملک کے پہلے انتخابات تھے، اُس وقت شکی و نااُمید عناصر نے ان انتخابات کا مضحکہ اُڑایا تھا۔ ان عناصر کا ماننا تھا کہ ہندوستانی انتہائی غریب ہیں ساتھ میں منقسم بھی، اس کے علاوہ بہت زیادہ کم علم بھی ہیں، ناخواندہ اور اَن پڑھ ہیں کس طرح اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ایک مہاراجہ ( دیسی حکمران ) نے جو نہ چاہتے ہوئے بھی انڈین یونین میں شمولیت اختیار کی، ایک دورہ کنندہ امریکی جوڑے کو بتایا تھا کہ کوئی بھی دستور جو ناخواندہ لوگوں کے ملک میں ان کی سرزمین پر عوام کو عالمی حق رائے دہی عطا کرتا ہے تو یہ پاگل پن ہے۔ مدراس کے ایک ایڈیٹر نے اس بات کی شکایت کی تھی کہ ایک بڑی اکثریت پہلی مرتبہ اپنے ووٹ کا استعمال کرے گی ان میں اکثر کو انتخابات کا علم ہی نہیں کہ آخر ووٹ ہے کیا؟ انہیں ووٹ کیوں ڈالنا چاہیئے اور کس کے حق میں انہیں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہیئے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اس تمام عمل کو تاریخ کا سب سے بڑا جوا قرار دیا گیا۔ دوسری طرف اُن انتخابات کے بارے میں آر ایس ایس کے ہفتہ وار اور اس کے ترجمان ’ آرگنائزر‘ نے یہ ریمارک کیا تھا کہ پنڈت نہرو ہندوستان میں عالمی بالغ رائے دہی کی ناکامی کا اعتراف کرنے زندہ رہیں گے۔ ان تمام خدشات، غلط فہمیوں اور غیر دانشمندانہ ریمارکس کے باوجود الیکشن میں عوام نے ووٹ ڈالے اور جسے ایک بڑا جوا قرار دیا گیا تھا اس جوا نے کام کیا۔ انتخابات میں بے شمار سیاسی جماعتوں اور مختلف سوچ و فکر و نظریات کی نمائندگی کرنے والوں نے حصہ لیا اور ان میں سے بالغ مرد و خواتین نے آزادانہ طور پر اپنے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو منتخب بھی کیا۔ اس طرح 1952 میں ہندوستان کے پہلے عام انتخابات کا بڑی کامیابی سے انعقاد عمل میں لایا گیا جو حقیقت میں ہندوستانی تاریخ میں ایک بہت بڑا سنگ میل تھے۔ بعد میں 1957 ، 1962، 1967 اور 1971 میں ہوئے انتخابات نے 1952 میں جو کوشش شروع کی گئی اس کوشش کو غیر معمولی طور پر کامیاب بنایا اور ملک میں انتخابی عمل کو گذرتے برسوں کے ساتھ مستحکم بنایا۔ ہندوستان کی تاریخ کے دوسرے سب سے اہم عام انتخابات مارچ 1977 میں منعقد ہوئے، اُسوقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون 1975 میں سارے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ ایمرجنسی اور مارچ 1977 کے بارے میں کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ کھلی، مسابقتی سیاست کا خاتمہ تھا اور ہندوستان ان ایشیائی اور افریقی ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہیں اور آمریت کا دور دورہ ہے۔ راقم الحروف کا یہ مشاہدہ رہا کہ اس وقت بھی اندرا گاندھی حکومت کیلئے کوئی چیلنج یا خطرہ نہیں تھا۔ ایمرجنسی برخواست کرکے تازہ انتخابات کا اعلان کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس کے باوجود اندرا گاندھی نے ایمرجنسی برخواست کرنے اور ملک میں تازہ انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا۔ مورخین نے 1977 کے عام انتخابات کے تین پہلوؤں پر خصوصی روشنی ڈالی۔ ان انتخابات کا پہلا پہلو یہ تھا کہ ان کا کامیاب انعقاد عمل میں لایا گیا۔ دوسرا اہم پہلو یہ رہاکہ انتخابی نتائج سیاسی تجزیہ نگاروں ، سیاسی پنڈتوں کیلئے پریشان کن اور حیرت انگیز ثابت ہوئے کیونکہ عام طور پر یہی توقع کی جارہی تھی کہ اندرا گاندھی کو کامیابی ملے گی، اس کی وجہ بھی تھی ۔ اُس دور میں مسز اندرا گاندھی بہت مقبول تھیں، یہ سمجھا جاتا تھا کہ 1971 میں پاکستان کے خلاف فوجی کامیابی کی چمک دمک ہنوز باقی تھی۔ اس کے علاوہ ان کی پارٹی تنظیمی لحاظ سے بہت زیادہ مضبوط و مستحکم تھی ساتھ ہی اس کے پاس پیسے( فنڈنگ ) کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ ملک کے سرفہرست صنعت کاروں نے ایمرجنسی کی تائید و حمایت کی تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن زیادہ مضبوط و مستحکم نہیں تھی بلکہ بکھری ہوئی تھی اور اس کے پاس فنڈنگ کی بھی کمی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں اور کیڈر کا حال یہ تھا کہ وہ طویل مدتوں تک جیلوں میں بند رہ کر آئے تھے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت دعویٰ کررہے تھے کہ اندرا گاندھی کی کانگریس کو کامیابی ملے گی لیکن دنیا نے دیکھا کہ کانگریس اکثریت حاصل کرنے سے قاصر رہی یہاں تک کہ مسز گاندھی اپنی سیٹ جیتنے میں بھی ناکام رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نئی دہلی پر کانگریس کی بجائے دوسری پاری کو اقتدار حاصل ہوا۔ اپوزیشن کو کامیابی ملی اور کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ ہندوستان کی سیاست پر کسی ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہندوستان ایک سیاسی پارٹی کی ریاست نہیں ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 1977 اور 2014 کے درمیان کوئی بھی ایک سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا دہلی پر دو میعادوں سے زیادہ اقتدار نہیں رہا، لیکن مجوزہ انتخابات کے بارے میں بھی یہی سمجھا جارہا ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی کو کامیابی ملے گی، اپوزیشن جماعتیں ناکام ہوں گی‘ لیکن یہ ہندوستانی جمہوریت ہے، عام انتخابات 2024 کے نتائج1977 کی طرح بھی آسکتے ہیں۔