انسان کو رہتی ہے محبت کی زباں یاد

   

غزوہ حنین و طائف کا معرکہ فتح پر منتج ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے نو مسلم رؤس مکہ کو مال غنیمت سے نواز دیا اور غنیمت میں ہاتھ آئے ہوئے مویشی سب کے سب ان ہی نومسلموں میں بانٹ دیئے۔ انصار مدینہ کو یہ بات گراں گزری اور چند زبانیں شکوہ سنج ہوئیں کہ جنگ کی سختیاں اور صعوبتیں تو ہم جھیلیں مگر جب تقسیم غنیمت کا وقت ہو تو رسول اللہ ﷺاپنے قبیلہ قریش کا لحاظ کریں اور انصار کو نظرانداز کردیں۔
حضور ﷺکی حسن سماعت تک یہ تبصرے پہنچے تو آپ نے انصار کو جمع فرمایا۔ پہلے ان برکتوں کو شمارکرایا جو اسلام کے دست عطا سے انصار کے ہاتھ لگیں پھر فرمایا کہ ’’ہاں تم بھی کہہ سکتے ہو کہ جب آپ بے یارو مددگار آئے تھے تو ہم نے مدد کی، آپ کا ساتھ دیا، ہمرکاب رہ کر جنگ کی۔ تم اگر یہ کہو تو سچ کہو گے۔ اسکے بعد حضور ﷺنے صرف ایک جملہ فرمایا مگر وہ جملہ ایسا تھا جس نے انصار کے جذبات میں تلاطم پیدا کردیا۔ آپ ﷺنے نہایت رقت آمیز لہجے میں فرمایا: ’’گروہ انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ تو اونٹ اور بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم محمد ﷺکو لے کر اپنے گھروں کو جائو۔ یہ جملہ سننا تھا کہ انصار کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے۔ روتے روتے آنسوئوں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں اور وہ پکار اٹھے: آقا ﷺہمیں صرف آپ ﷺ ہی درکار ہیں۔
کلام خلق محمدؐ کا دیکھئے اعجاز
ہے لفظ لفظ محبت سمن سمن خوشبو